تشریح:
1۔ ابتدائے اسلام میں مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے جب زیادہ ہو گئےتو ان سے تخفیف کردی گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ہر حالت میں دشمن کا مقابلہ کریں اگرچہ تنہاہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کی مدد کرے گا۔ اور دشمنوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ جب غزوہ حنین میں مسلمانوں سے کمزوری ہوئی تو آپ دشمن کے مقابلے میں تن تنہا ڈٹے رہے اور فرماتے رہے۔ (أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب) "میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں ۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔" (صحیح البخاری، الجھاد والسیر، باب:2864)
2۔ امر بالمعروف اور نہی المنکر بھی جہاد کی طرح ہے کیونکہ جہاد میں کلمہ حق بلند کرنا ہوتا ہے اور امر بالمعروف میں کلمہ باطل ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے اگر مخالفین کی جماعت برا بر یادو گنی ہو تو بھی کلمہ حق کہنے سے دریغ نہ کرے اور اگر مخالفین تعداد میں اس سے زیادہ ہوں اور جان کا خطرہ ہو تو اس وقت خاموشی اختیار کرنا جائز ہے لیکن دل سے انھیں برا سمجھے اور ان سے نفرت کرے۔ واللہ اعلم۔