تشریح:
1۔ جب مسلمانوں میں ایمان عزم اور حوصلہ وغیرہ عروج پر تھا تو ان کا ایک ایک فرد دس، دس افراد پر بھاری تھا اور جب ان چیزوں میں کمی آگئی تو مسلمانوں کی قوت میں بھی فرق آگیا۔یہ تخفیف کا منفی نتیجہ ہے اب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پہلا حکم منسوخ یا ساقط العمل ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ نو مسلم پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان میں قوت ایمان پختہ ہو جائے تو پھر سابقہ حکم ہی نافذ العمل ہو گا، چنانچہ دور نبوی کی آخری جنگوں میں عملاً ایسا ہوا بھی تھا اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے زمانے میں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ جنگ موتہ کے موقع پر تین ہزار مسلمان ایک لاکھ کافروں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔
2۔ چونکہ مسلمان کے لیے دو سعادتیں ہیں جن سے کافر محروم ہیں مومن اگر جنگ میں کام آتا ہے تو سیدھا جنت میں جاتا ہے اور اگر صحیح سالم واپس آتا ہے تو مال غنیمت اور اجر عظیم لے کر لوٹتا ہے لیکن کافر صرف دنیاوی سامان کے لیے پڑتا ہے اور اس لیے وہ اخروی سعادت سے محروم رہتا ہے۔