تشریح:
1۔ فتح مکہ سے پہلے مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ میں داخل کے متعلق مختلف پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ اس میں عبادات حج وعمرہ نہیں کر سکتے۔ رمضان 8 ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو وہ پابندیاں خود بخود اٹھ گئیں اب 8 ہجری میں تو مسلمان حج ہی نہ کر سکے کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینے پہنچنے تک اتنا وقت ہی نہ تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ طیبہ سے آتے 9 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حج کے لیے روانہ فرمایا اور سیدنا ابو بکر ؓ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک مشرکین کے بیت اللہ میں داخلے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقے پر حج کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔
2۔ سیدنا ابو بکر ؓ کی روانگی بعد سورت توبہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جس بنا پر مشرکین کے لیے بیت اللہ میں داخلے پر نہ صرف پابندی لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل اعلان براءت کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر یہ بہتر خیال کیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتے دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکین کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام خیال کیا جا سکے چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی ؓ کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے عظیم اجتماع میں ان آیات کا اعلان کردیں اس وقت تک بیت اللہ کا ننگا طواف ہوتا تھا اور مشرکین اس طرح طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے جبکہ اسلام اس قسم کی فحاشی کو بیت اللہ میں کیونکر برداشت کر سکتا تھا چنانچہ یہ اعلان کردیا گیا کہ آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکےگا، نیز مشرکین خود کو بیت اللہ کا متولی خیال کرتے تھے اب اعلان کردیا گیا کہ متولی ہونا تو درکنار وہ آئندہ کعبے کے قریب بھی نہیں پھٹک سکیں گے۔ اسی طرح دوسرے اعلانات بھی کیے گئے جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔