تشریح:
1۔ اس حدیث کے مطابق دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی قربانی کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر ؓ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر مقامی روایات کے مطابق حضرت على ؓ نے یہی اعلان کیا۔2۔ مشرکین کی کئی قسمیں تھیں جن مشرکین سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں تھا چار ماہ کی مہلت دی گئی اس میں بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں؟ اگر وہ اسلام لے آئیں تو ان کے لیے دنیا و آخرت کے اعتبار سے بہتر ہو گا۔ اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل تھے جو صلح کا معاہدہ تو کر لیتے تھے مگر صلح کی شرائط کچھ ایسی طے کرتے کہ ان کے لیے فتنے اور عہد توڑنے کی گنجائش باقی رہتی۔ یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا عہد بھی اس اعلان براءت کے ذریعے سے ختم کردیا گیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اگر آپ کو کسی قوم سے عہد شکنی کا خطرہ ہو تو برابری کی سطح پر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔" (الأنفال:58/8) البتہ صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو کچھ رعایت دی گئی جس کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔
3۔ اس حدیث کے آخر میں حج اکبر کے دن کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ قربانی کا دن ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حج اکبر کے دن کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ قربانی کا دن ہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3088)