تشریح:
1۔ یہ حدیث پہلے (462) گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے مشرک کے مسجد میں داخل ہونے کا جواز ثابت کر رہے ہیں کہ ثمامہ بن اثال ؓ کو بحالت شرک مسجد میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا اور تین دن تک وہ مسجد میں محبوس رہے۔ اس سے مسجد میں مشرک کا قیام ثابت ہوا جس میں دخول کا جواز بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا ۔ بعض اہل علم نے کہا کہ یہ عنوان مکرر ہے، کیونکہ اس سے پہلے قیدی کو مسجد میں باندھنے کا مسئلہ آیا تھا جو دخول کو لازم ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ عنوان میں عمومیت ہے، یعنی اس میں مطلق داخل ہونے کا بیان ہے قطع نظر اس کے کہ اسے باندھا جائے یا آزاد چھوڑا جائے۔ نیز باب سابق میں قیدی کے متعلق عموم ہے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ (فتح الباري:724/1) بہر حال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ بوقت ضرورت کفار و مشرکین کو بھی آداب مساجد کی شرائط کے ساتھ مسجدوں میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم ۔ 2۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ جب مشرکین مکہ غزوہ بدر کے قیدیوں کوچھڑانے کے لیے مدینہ منورہ آئے تو انھوں نے مسجد نبوی ہی میں قیام کیا، کیونکہ ان میں جبیر بن مطعم بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کی دوران جماعت میں سنی ہوئی، قراءت کو بعد میں بیان کرتے تھے کہ آپ نے مغرب کی نماز سورہ الطور پڑھی تھی اور حضرت جبیر بن مطعم ؓ اس وقت مشرک تھے، لہٰذا مشرک کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔ (شرح ابن بطال:118/2)