تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ آیت بالا میں انہی جنات کا بیان ہے جومسلمان ہوچکے تھے لیکن ان کی پوجا کرنے والے بدستور ان کی عبادت کرتے رہے۔ وہ بزرگان اسلام بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جو خود تو موحد، دین دار، متبع سنت اور پرہیز گار تھے مگر عوام نے اب ان کی قبروں کو قبلہ حاجات بنالیا ہے، وہاں نذرونیازچڑھاتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ ایسے نام نہاد مسلمانوں نے اسلام اور حقیقی اہل اسلام کو بدنام کررکھا ہے۔
2۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت میں ایسے معبودوں کا ذکر ہے جو جاندار ہیں، پتھر کی مورتیاں اس میں شامل نہیں ہیں، فرشتے، جن یا فوت شدہ انبیاء ؑ اورصالحین اس سے مراد لیے جاسکتے ہیں۔
3۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر آپ اپنے حق میں دعا کرسکتا ہے۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ غارمیں پھنس جانے والے تین آدمیوں کے واقعے سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ واللہ المستعان۔