تشریح:
1۔واقعہ معراج ایک خرق عادت معجزہ تھا۔کفار نے اس معجزے کا اتنا مذاق اڑایا کہ کمزور ایمان والے لوگ بھی شک میں پڑ گئے۔پھر وہ کافر جنھوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوالات پوچھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیے اورآپ ﷺ ان کے تمام سوالات کے جوابات دینے لگے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے لیکن وہ ان کے لیے آزمائش اور باعث فتنہ بن گیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کرنے لگے۔
2۔تھوہر کے درخت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جہنم کی تہ سے تھوہر کادرخت اُگے گا۔ یہی اہل جہنم کاکھاناہوگا۔ اس کے علاوہ انھیں کھانے کی کوئی اورچیز نہیں ملے گی۔" (الصافات:62/37) اس پر بھی کفار نے بہت باتیں بنائیں کہ آگ میں یہ درخت کیسے اُگ سکتاہے،حالانکہ آگ کا کیڑا سَمَندر(Salamander) آگ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔
3۔تھوہر کا درخت ملعون اس لیے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کی نہیں بلکہ اس کے کانٹے اتنے سخت ہوتے ہیں وہ اہل دوزخ کی اذیت اورتکلیف میں اضافہ ہی کریں گے۔