تشریح:
1۔ اس حدیث میں میدان ِبدر کی مبارزت کا اجمالی سا ذکر ہوا ہے جبکہ ایک دوسری حدیث میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ بدر کے دن جب دونوں لشکر مقابلے میں آگئے تو عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عبتہ کو لے کر میدان میں نکلا اور نعرہ لگایا: مقابلے کے لیے کون آتا ہے؟ مسلمانوں کے لشکر سے تین انصاری نوجوان مقابلے کے لیے نکلے تو عتبہ نے کہا: تم کون لوگ ہو اور کس قوم سے تمہارا تعلق ہے؟ انھوں نے اپنے نام بتائے تو عتبہ نے کہا: تم ہمارے جوڑ کے نہیں ہو، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے، پر آوازدی کہ تم لوگ ہماری توہین نہ کرو۔ ہم ان کاشتکاروں سے لڑنے نہیں آئے۔ ہمارے مقابلے میں ان لوگوں کو بھیجو جو ہمارے ہمسر اور ہمارے جوڑ کے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اورسیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومیدان میں نکلنے کے لیے کہا۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو جلد ہی عتبہ کو ٹھکانے لگا دیا، اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شیبہ کو واصل جہنم کیا لیکن حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولید بن عتبہ سے سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار کیا۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹانگیں کٹ گئیں، پھر سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور انھوں نے ولید کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو دم توڑ رہے تھے انھیں اٹھا کر لے آئے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث:2665)
2۔ بہرحال ﴿هَذَانِ خَصْمَانِ﴾ یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں، اس سے مراد گمراہ فرقے اور ان کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ اپنے رب کے متعلق جھگڑتے ہیں۔ مسلمان تو اس کی وحدانیت اور قدرت کاملہ کے قائل ہیں جبکہ دوسرے گروہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں میدان بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں جس کے آغاز میں ایک طرف حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں سے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عموم کے اعتبار سے یہ دونوں مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔