تشریح:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے بعض نسخوں میں عنوان کے ساتھ "مدالرجل" کے الفاظ ہیں بعض میں نہیں ۔ ہمارے نسخے میں یہ الفاظ موجود ہیں، لہٰذا اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ مسجد میں چت لیٹنا اور پاؤں پھیلانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسجد میں عبادت کی جگہ ہے سونے اور لیٹنے کی جگہ نہیں، نیز بعض احادیث میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی چت نہ لیٹے پھر یہ بھی نہ کرے۔ کہ اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ لے۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث:5503 (2099)) تو اس ممانعت کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کا محمل اور محل اور ہے۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب ستر عورت کا پوری طرح اہتمام نہ ہو سکے، مثلاً:کپڑا چھوٹا ہو اور اس طرح لیٹنے سے ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت عرب معاشرے میں تہبند استعمال کرنے کا رواج تھا شلواروغیرہ نہیں پہنی جاتی تھی، تاہم اگر کپڑا گنجائش دار ہے اور ستر کھلنے کا کوئی اندیشہ نہیں، بلکہ ستر عورت کا پورا اہتمام کیا ہے تو اس طرح چت لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ رسول اللہ ﷺ عام لوگوں کی موجودگی میں اس طرح نہیں لیٹتے تھے، بلکہ خاص استراحت کے وقت کبھی ایسا کیا ہو گا جبکہ عام لوگ وہاں موجود نہ ہوں گے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے سامنے جس وقار اور سنجیدگی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تھے، اس کی تفصیلات بھی احادیث میں موجود ہیں رہا۔ یہ احتمال کہ اس طرح لیٹنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہ ہو تو اس کے لیے امام بخاری ؒ نے خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا عمل بھی پیش کردیا۔ معلوم ہوا کہ اس طرح مسجد میں لیٹنا رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی جائز ہے۔ (فتح الباري:729/1) امام حمیدی ؒ نے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے کہ ان کا عمل بھی ایسا تھا۔ (عمدة القاري:540/3) 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس عنوان میں دوباتوں کا جواز پیش کیا جا رہا ہے، چت لیٹنا اور ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ۔ دوسری احادیث میں اس کی ممانعت بھی آئی ہے، اس لیے تطبیق کے طور پر کہا جائے گا کہ ممانعت والی حدیث منسوخ ہیں یا ممانعت اس وقت ہے جب تہبند چھوٹا ہو اور اس سے ستر کھلنے کا اندیشہ ہو۔