تشریح:
1۔ اس حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے قرآن کریم میں کئی آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے جو لوگ آپ کو غیب دان کہتے ہیں وہ آپ پر تہمت لگاتے ہیں اگر آپ کو غیب کا علم ہوتا تو روز اول ہی سے اس جھوٹ کی قلعی کھول دیتے اور دشمنوں کی زبانیں بند کر دیتے لیکن اس سلسلے میں آپ کو کافی دنوں تک انتظار کرنا پڑا آخر سورہ نور نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی کو قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ کر دیا۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طویل حدیث کو فحاشی اور بے حیائی کے پھیلانے اور ان کی سنگینی کے ضمن میں بیان کیا ہے واقعی جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انھیں پھیلا کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں ایسے لوگوں کو صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی سزا ملنی چاہیے ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے۔ آیت کریمہ کے الفاظ بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کی تمام صورتوں کو شامل ہیں۔ اپنے عموم کے اعتبار سے ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے اور بازار حسن کے اجازت نامے دینے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو ابھارنے والے قصوں، کہانیوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ہوتا ہے۔ نیز وہ کلب ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس میں نیٹ کیفے، کیبل، ویڈیو، تصویر والے موبائل اور ان کی تمام حرکات وسکنات آجاتی ہیں جن سے فواحش ومنکرات کو ہوا ملتی ہے۔ اسلامی حکومت کے قانون تعزیرات میں یہ تمام کام واجب سزا اور قابل دست اندازی پولیس ہونے چاہئیں۔ واللہ اعلم