Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Raising the voice in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
477.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں، مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد ؓ سے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان آوازوں کو اپنے حجرے میں سنا۔ پھر آپ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے۔ بعد ازاں آواز دی اور فرمایا: "اے کعب!" حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنے قرض سے آدھا چھوڑ دو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (ابن ابی حدرد ؓ) سے فرمایا:"جاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔"
تشریح:
1۔ مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔ اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔ آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔2۔پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا : میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔( فتح الباری:1/726۔) 3۔ دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:) وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔"( البقرۃ:2/280۔)مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
467
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
471
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
471
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
471
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں، مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد ؓ سے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان آوازوں کو اپنے حجرے میں سنا۔ پھر آپ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے۔ بعد ازاں آواز دی اور فرمایا: "اے کعب!" حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنے قرض سے آدھا چھوڑ دو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (ابن ابی حدرد ؓ) سے فرمایا:"جاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔"
حدیث حاشیہ:
1۔ مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔ اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔ آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔2۔پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا : میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔( فتح الباری:1/726۔) 3۔ دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:) وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔"( البقرۃ:2/280۔)مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انھوں نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا، ان کو ان کے باپ کعب بن مالک ؓ نے خبر دی کہ انھوں نے عبداللہ ابن ابی حدرد ؓ سے اپنے ایک قرض کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسجد نبوی کے اندر تقاضا کیا۔ دونوں کی آواز کچھ اونچی ہو گئی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے حجرہ سے سن لیا۔ آپ اٹھے اور حجرہ پر پڑے ہوئے پردہ کو ہٹایا۔ آپ نے کعب بن مالک کو آواز دی، اے کعب! کعب بولے۔ یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ اپنا آدھا قرض معاف کر دے۔ حضرت کعب نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کر دیا۔ آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب چل اٹھ اس کا قرض ادا کر۔
حدیث حاشیہ:
طائف مکہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر مشہور قصبہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مسجدنبوی میں شوروغل کرنے پر جھڑکا اوربتلایا کہ تم لوگ باہر کے رہنے والے اورمسجد کے آداب سے ناواقف ہو اس لیے تم کو چھوڑدیتاہوں، کوئی مدینہ والا ایسی حرکت کرتا تو اسے بغیر سزادئیے نہ چھوڑتا۔ اس سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایاکہ فضول شوروغل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے۔ دوسری روایت سے آپ نے ثابت فرمایاکہ تعلیم رشد وہدایت کے لیے اگر آواز بلند کی جائے تو یہ آداب مسجد کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر ان کونیک ہدایت فرمائی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر بھی رعایت دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ مقروض نادار ہی ہو تو یہ عین رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ قرآن کریم کی بھی یہی ہدایت ہے۔ مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پورا قرض ادا کرکے اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Kab bin Malik (RA): During the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) I asked Ibn Abi Hadrad in the mosque to pay the debts which he owed to me and our voices grew so loud that Allah's Apostle (ﷺ) heard them while he was in his house. So he came to us after raising the curtain of his room. The Prophet (ﷺ) said, "O Ka'b bin Malik!" I replied, "Labaik, O Allah's Apostle." He gestured with his hand to me to reduce the debt to one half. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) has done it." Allah's Apostle (ﷺ) said (to Ibn Hadrad), "Get up and pay it."