تشریح:
1۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو وہ بڑا ہوکر اسلام پر کار بند ہوگا لیکن انسان کی اس فطرت اصلی پر والدین یا ماحول کا گہرا ثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔ اس دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کا اثر ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیجتا اور آسمان سے کتابیں نازل کرتا ہے۔
2۔ بہرحال ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی قوت رکھ دی گئی ہے اور اسی لیے اسے حق قبول کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا، مثلاً: اگر فرعون اور ابوجہل میں قبول حق کی یہ صلاحیت نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی فضول ہوتا، اس لیے انسان کو ایسے اسباب ووسائل سے پرہیز کرنا چاہیے جو اس کی قبول حق کی استعداد ختم یا کمزور کردے اور وہ اسباب اکثر غلط ماحول اور بری صحبت ہیں، اسی طرح اہل باطل کی کتابیں پڑھنا جبکہ خود اپنے مذہب اسلام کا پورا عالم نہ ہو۔ واللہ اعلم۔