تشریح:
1۔ حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کہا اسے کرکے دکھایا کہ میدان جہاد میں بصد شوق اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جیساکہ درج ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میرے چچا حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں پہلی لڑائی میں غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی تھی۔ اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضر ہونے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ مشرکین نے کیا میں اس سے بے زار ہوں، پھر وہ آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے، ان سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اسے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر کے رب کی قسم! میں جنت کی خوشبو اُحد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جو انھوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ہم نے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کیا تو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے تقریباً اسی نشانات ان کے جسم پر تھے۔ جب وہ شہید ہوئے تو مشرکین نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے۔ کوئی شخص بھی انہیں پہنچان نہیں سکتا تھا۔ صرف ان کی بہن نے انھیں انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: ہمارے خیال کے مطابق درج ذیل آیت کریمہ ان کے اور ان جیسے اہل ایمان کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ ’’اہل ایمان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اس عہد کو پوراکردکھایا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیاتھا۔۔۔‘‘ (الأحزاب :23 و صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:2895، و صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4918(1903)) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرا نام میرے چچا زید بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ (جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث:3200)