تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وضاحت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کنندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت بصارت وسماعت کو ختم کردے گا لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا۔ مسروق کہتے ہیں کہ ہم اس کی یہ بات سن کر بہت گھبرائے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے یہ وضاحت فرمائی۔ ( صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4774)
2۔ کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کیا جائے گا؟ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا میں سزا کا بیان ہے۔ قیامت کے عذاب میں تخفیف ممکن نہیں بلکہ وہاں تو ان کی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز بھی انھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے گی۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصد یہ ہے کہ عام معاملات زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے فرمایا: ہمیں تکلفات سے منع کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب و السنة، حدیث:7293) اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات زندگی میں تکلف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔ لیکن آج کل میعار زندگی بلند کرنے کے لیے تکلف اصحاب حیثیت لوگوں کا شعار اور وتیرہ بن چکا ہے۔ واللہ المستعان۔