قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا أَنَا مِنَ المُتَكَلِّفِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4809. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ الدُّخَانِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قُرَيْشًا إِلَى الْإِسْلَامِ فَأَبْطَئُوا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ فَحَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْجُلُودَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ دُخَانًا مِنْ الْجُوعِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ فَدَعَوْا رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّى لَهُمْ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ أَفَيُكْشَفُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَكُشِفَ ثُمَّ عَادُوا فِي كُفْرِهِمْ فَأَخَذَهُمْ اللَّهُ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ

مترجم:

4809.

حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: ’’آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔‘‘ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: ’’اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔‘‘ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار اور چمڑے تک کھا گئے۔ شدت بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا تو اسے دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’آپ انتظار کریں، اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ دردناک عذاب ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: پھر قریش دعا کرنے لگے: ’’اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے دور کر دے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے، لیکن ان لوگوں کو نصیحت کب ہوتی ہے، حالانکہ ان کے پاس (حق) واضح کرنے والا رسول آ چکا، پھر بھی یہ لوگ سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ یہ سکھایا ہوا اور دیوانہ ہے۔ بےشک ہم تھوڑے دنوں کے لیے ان سے عذاب ہٹا لیں گے۔ بلاشبہ تم دوبارہ وہی کرنے والے ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کر دیا جائے گا؟ پھر جب یہ عذاب ان سے دور کر دیا گیا تو وہ دوبارہ کفر میں مزید بڑھ گئے، پھر غزوہ بدر میں اللہ تعالٰی نے انہیں پکڑا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالٰی میں اسی طرف اشارہ ہے: ’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے۔ یقینا اس روز ہم پورا پورا بدلہ لے لیں گے۔‘‘