تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں کیا، صرف چند مشکل الفاظ کی لغوی تشریح کے بعد یہ حدیث بیان کر دی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سوہ مبارکہ میں ایک مرد مومن کا ذکر ہے، اس مرد مومن کے نام سے یہ سورت موسوم ہے۔ اس نے فرعون کے دربار میں اپنا ایمان ظاہر نہیں کیا تھا اور وہ خود اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم مجھے اجازت دو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردوں، تو اس مرد مومن نے کہا: کیا تم اسے صرف اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیلیں لے کر آیا ہے۔
2۔ قرآن کریم کے اس واقعے پر غور کرنے سے حدیث کی مناسبت کا بھی پتا چل گیا کہ اس واقعے کی سورہ مومن کے واقعے سے پوری پوری مماثلت ہے۔ واللہ اعلم۔
3۔ واضح رہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آل فرعون کے مرد مومن سے افضل ہیں کیونکہ وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھلم کھلا اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے، پھرآل عمران کے مرد مومن نے صرف زبانی بات پر اکتفا کیا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ کو زبان کے تابع کیا اور قول و فعل دونوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔