قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4844. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ فَقَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَالَ رَجُلٌ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ فَقَالَ عَلِيٌّ نَعَمْ فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ فَقَالَ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَى قَالَ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ

مترجم:

4844.

حضرت حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابو وائل کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا، انہوں نے کہا: ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ایک شخص نے کہا: آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے جاتے ہیں؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ہاں ہم قرآنی فیصلے کے لیے تیار ہیں، (لیکن خوارج اس کے خلاف تھے۔) اس پر حضرت سہل بن حنیف ؓ نے فرمایا: تم اپنی رائے پر نظرثانی کرو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے مقام پر تھے ۔۔ ان کی مراد صلح حدیبیہ تھی جو نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان طے پائی تھی ۔۔ اگر ہم مناسب سمجھتے تو ضرور جنگ کرتے۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے اور عرض کی: کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے شہداء جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا کفار کے مقتولین جہنم کا ایندھن نہیں بنیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، یہ سب کچھ صحیح ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کی: پھر میں اپنے دین کے معاملے میں اس قدر ذلت کا مظاہرہ کیوں کروں اور ہم کیوں واپس جائیں جبکہ اللہ تعالٰی نے ابھی ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالٰی مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر ؓ (رسول اللہ ﷺ کے پاس سے) غصے کی حالت میں واپس آ گئے اور انہوں نے صبر و ثبات کا مظاہرہ نہ کیا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور کہا: کیا ہم حق پر اور وہ (کفار مکہ) باطل پر نہیں؟ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا: اے ابن خطاب! یقینا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالٰی انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورہ فتح نازل ہوئی۔