تشریح:
1۔ واقعات یہ ہیں کہ جنگ صفین میں جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپاہی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپاہیوں پر غالب ہونے لگے تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ تم قرآن کریم کو بلند کرو اور کہو کہ اس قرآن پر دونوں فیصلہ کرلیں۔ جب قرآن کریم سامنے آیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں تم لوگوں سے بڑ ھ کر اس پر عمل کرنے والا ہوں۔ اتنے میں خوارج درمیان میں بھڑک اُٹھے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ فیصلہ منظور نہیں کیونکہ فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہونا چاہیے، ہم اس فیصلے کا انتظار نہیں کرتے۔ ہم تو ضرور جنگ کریں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر کی جو خوارج کے خلاف تھی۔ آپ نے کہا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہمارے سامنے ایسی شرائط آئیں کہ ہم انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ مرنے اور مارنے کے لیے آمادہ تھے لیکن ہم نے اپنے جذبات پر کنٹرول کیا اور اپنی رائے پر نظر ثانی کی تواس میں اللہ تعالیٰ نے خیروبرکت عطا فرمائی۔
2۔ بہرحال صلح حدیبیہ جسے مسلمان بظاہر اپنی توہین اور شکست سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کے متعلق کفار تو درکنار مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرپائے تھے، پھر جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے، مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ واقعی یہ صلح اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو احساس ہوا وہ خود فرماتے ہیں کہ اس موقع پر مجھ سے جو بے ادبی پر مشتمل گفتگو ہوئی اس کی تلافی کے لیے میں نے اس کے بعد کئی نیک عمل کیے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث:2731)