تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا، مگر بنو نضیر کی مسلسل بد عہدیوں کی وجہ سے ان کا استحصال ضروری تھا، لہذا اس خاص موقع پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دی۔
2۔ واقعہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے گرد بنو نضیر کا ایک بہت ہی خوبصورت باغ تھا جسے بویرہ کہتے تھے۔ اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو انھوں نے باغ کو بطور ڈھال استعمال کیا، اس لیے جو درخت اس کام کے لیے رکاوٹ بن رہے تھے مسلمانوں نے انھیں کاٹ ڈالا اورجہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انھیں آگ لگا کر محاصرے کے لیے راہ صاف کرلی۔ جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس وقت حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شعر پڑھا: ’’بنو لئوی کے سرداروں (مشرکینِ مکہ) پر یہ بات گراں گزری کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔‘‘
3۔ جب راستہ صاف کرنے کے لیے مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے اور انھیں آگ لگائی تو مخالفین نے ایک شور برپا کردیا کہ دیکھو مسلمان ان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا۔ یہ حکم قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے عموماً وحی خفی کہا جاتا ہے۔
4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی تخریبی کار روائی جنگ کے لیے ناگزیر ہوتو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آئے گی۔