قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: صَغَوْتُ وَأَصْغَيْتُ: مِلْتُ {لِتَصْغَى} [الأنعام: 113]: لِتَمِيلَ {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ، وَصَالِحُ المُؤْمِنِينَ وَالمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: 4]: عَوْنٌ تَظَاهَرُونَ تَعَاوَنُونَ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ} [التحريم: 6]: «أَوْصُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَأَدِّبُوهُمْ»

4915. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثْتُ سَنَةً فَلَمْ أَجِدْ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى خَرَجْتُ مَعَهُ حَاجًّا فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرَانَ ذَهَبَ عُمَرُ لِحَاجَتِهِ فَقَالَ أَدْرِكْنِي بِالْوَضُوءِ فَأَدْرَكْتُهُ بِالْإِدَاوَةِ فَجَعَلْتُ أَسْكُبُ عَلَيْهِ الْمَاءَ وَرَأَيْتُ مَوْضِعًا فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَمَا أَتْمَمْتُ كَلَامِي حَتَّى قَالَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ عرب لوگ کہتے ہیں «صغوت» ای «صغوت» یعنی میں جھک پڑا ( «لتصغى») جو سورۃ الانعام میں ہے جس کا معنی جھک جائیں۔ «وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل وصالح المؤمنين والملائكة بعد ذلك ظهير» یعنی ”اگر نبی ( ﷺ ) کے مقابلہ میں تم روز نیا حملہ کرتی رہیں تو اس کا مددگار تو اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔“ «ظهير» کا معنی مددگار۔ «تظاهرون» ایک کی ایک مدد کرتے ہو۔ مجاہد نے کہا آیت «قوا أنفسكم وأهليكم» کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کا ڈر اختیار کرنے کی نصیحت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔“

4915.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر ؓ سے ان دو عورتوں کے متعلق سوال کرنا چاہا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف ایکا کیا تھا۔ میں ایک سال اسی فکر میں رہا اور مجھے کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔ آخر میں ان کے ساتھ ایک مرتبہ حج کے لیے نکلا، واپسی پر جب ہم مقام ظہران میں تھے تو حضرت عمر ؓ رفع حاجت کے لیے باہر گئے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: میرے لیے وضو کا پانی لاؤ۔ میں ایک برتن میں پانی لایا اور آپ کو وضو کرانے لگا۔ اس وقت مجھے موقع ملا تو میں نے عرض کی: امیر المومنین! وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف منصوبہ سازی کی تھی؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی کہ انہوں نے فرمایا: ’’وہ عائشہ اور حفصہ ؓ تھیں۔‘‘