قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ (وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسِبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ العَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ))

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4939 .   حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَقَالَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ قَالُوا كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوا شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقِي فِي إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ فَدَعَاهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَقَوْلُهُ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ قَالَ كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( واذا رایتھم تعجبک اجسامھم.... )) کی تفسیریعنی”اے نبی! تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم حیران کرتے ہیں، جب وہ باتیں کرتے ہیں تو تو ان کی بات سنتا ہے گویا وہ بہت بڑی لکڑی کے کھمبے ہیں جن کے ساتھ لوگ تکیہ لگاتے ہیں، ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں پس تم اے نبی! ان دشمنوں سے بچتے رہو، ان پر اللہ کی مار ہو کہاں کو بہکے جاتے ہیں“۔

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

4939.   حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے جس میں لوگوں کو بہت شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سفر میں عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں، ان پر خرچ مت کیا کرو تا کہ وہ خود ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں اور اس نے یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا ان ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس گفتگو کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہا: میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ لوگوں نے کہا: زید بن ارقم نے رسول اللہ ﷺ سے غلط بیانی کی ہے۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت تکلیف پہنچی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے میری تصدیق اتار دی اور یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ﴾ آخر تک۔ پھر نبی ﷺ نے انہیں بلایا تاکہ (ان کے اعتراف جرم کے بعد) ان کے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔ ارشاد باری تعالٰی: ’’سہارے سے لگائی ہوئی لکڑیاں‘‘ اس کے معنی ہیں: وہ خوبصورت اور اچھے قد و قامت کے تھے۔