تشریح:
1۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب لینے کے لیےسوء الحساب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کا بری طرح حساب لیا جائے گا۔ آسان حساب کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے کسی حصے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔ ’’اے اللہ! میرا حساب آسان فرمانا۔‘‘ میں نے نماز سے فراغت کے بعد عرض کی آسان حساب کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس کا اعمال نامہ دیکھے گا اور اسے معاف کر دے گا۔‘‘ (مسند أحمد:48/6)
2۔ ایک حدیث میں ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے پردے میں لے کر اسے کہے گا۔ ’’کیا تونے فلاں گناہ کیا تھا؟ کیا تو فلاں گناہ کو پہچانتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں نے ان پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھا۔ آج میں تجھے معاف کرتا ہوں پھراسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دے دیا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4685)