قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ (بَابُ كَيْفَ نَزَلَ الوَحْيُ، وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " المُهَيْمِنُ: الأَمِينُ، القُرْآنُ أَمِينٌ عَلَى كُلِّ كِتَابٍ قَبْلَهُ "

4978.01. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَيْبَانَ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَا لَبِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ ابن عباس ؓ نے کہا کہ «المهيمن» امین کے معنی میں ہے۔ قرآن اپنے سے پہلے کی ہر آسمانی کتاب کا امانت دار اور نگہبان ہے۔تشریح:قرآن مجید کے مھین امانتدار نگہبان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پہلی کتابوں توراۃ‘زبور‘انجیل میں جو کچھ ان کے ماننے والوں نے تحریف کر ڈالی ہے قرآن مجید اس تحریف کی نشاندہی کر کےاصل مضمون کی طرف آگاہی بخشتا ہے ایک مثال سے یہ بات تو سمجھ میں آجائے گی توراۃ کا موجودہ کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا ہاتھ سفید اس لئے تھا کہ آپ کو ہاتھ میں برص کی بیماری لگ گئی تھی یہ بیان بالکل غلط ہے قرآن مجید نے اس غلط بیانی یک تردید کر کے تخرج بیضاء من غیر سوء‘‘ کے الفاظ مبارکہ میں حقیقت حال سے آگاہ کیا ہے یعنی حضرت موسیٰ کا ہاتھ بطور معجزہ سفید ہو جایا کرتا تھا اس میں کوئی بیماری نہیں لگی تھی توراۃ زبور انجیل کی ایسی بہت سی مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں اس لحاظ سے قرآن مجید مھین یعنی صحف سابقہ کی اصلیت کا بھی نگہبان ہے وحی نازل ہونے کی تفصیلات پارہ اول میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

4978.01.

سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس ؓم سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ مکہ میں دس سال رہے اور آپ پر قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ طیبہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔