تشریح:
1۔ قرآن کریم متفرق سورتوں اور آیات کی صورت میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس موجود تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اسے کتابی شکل میں یکجا کر دیا جائے اور اگرکسی عربی لفظ کی کتابت میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن کریم انھی کے محاورے کے مطابق نازل ہواہے۔ (فتح الباري:13/9) چنانچہ لفظ "التابوت" کے متعلق اس کمیٹی کا اختلاف ہوا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اسے"التابوة" کی شکل میں لکھا جائے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء کہتے تھے کہ اسے "التابوت" لکھا جائے۔ جب معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انھوں نے فرمایا: اسے التابوت ہی لکھا جائے کیونکہ قریش کا محاورہ یہی ہے۔ (عمدة القاري: 531/13)
2۔ واضح رہے کہ مذکورہ عنوان مستقل نہیں بلکہ اضافی ہے جسے ایک خاص فائدے کی وجہ سے الگ بیان کیا گیا ہے، اس لیے آئندہ حدیث کا تعلق عنوان سابق سے ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی کیفیت کیا تھی۔ واللہ اعلم۔