تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی بیٹی سے نکاح کی کسی نیک مرد کو پیش کش کر سکتا ہے، اور اس میں کوئی بےعزتی اور توہین والی بات نہیں ہے۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زیادہ ناراض ہونا اس لیے تھا کہ انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبت تھی اور جہاں محبت زیادہ ہو وہاں ناراضی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر معذرت کی تھی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف خاموشی اختیار کیے رکھی۔
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے قابل اعتماد ساتھی سے یہ ذکر کرنا جائز ہے کہ وہ فلاں عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ابھی تک اسے پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا تھا۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی تقوی شعار کو اپنی بیٹی یا بہن سے نکاح کی پیش کش کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔