تشریح:
(1) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما شوہر دیدہ تھیں، اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حق ولایت ختم نہیں ہوا بلکہ وہی مختلف حضرات کو ان کے ساتھ نکاح کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔ اگر وہ اس کے مجاز نہ ہوتے تو یہ اقدام نہ کرتے۔
(2) بعض حضرات عقد نکاح کو خرید و فروخت کے معاملے پر قیاس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے بیع کے انعقاد میں محض بیچنے اور خریدنے والے کی رضامندی ہی کافی ہوتی ہے اسی طرح نکاح میں بھی لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ہی کافی ہے۔ لیکن یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے یہ قیاس باطل اور بے اصل ہے۔
(3) بہرحال عورت کے نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ ولی سے مراد باپ ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر بھائی، اس کے بعد چچا ہے۔اختلاف کی صورت میں قریبی ولی کو ترجیح ہوگی۔ اگر دونوں ولی برابر حیثیت رکھتے ہوں تو اختلاف کی صورت میں حاکم یا پنچایت کو حق ولایت ہوگا۔ والله اعلم