تشریح:
(1) پوری آیت اس طرح ہے : ’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں، بشرطیکہ وہ آپس میں اچھے اور جائز طریقے سے راضی ہو جائیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اگرچہ نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے لیکن اس سے سرپرست کا حق ولایت ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ بنو۔ اگر ان کا اختیار نہیں ہے تو انھیں رکاوٹ بننے کا کیا حق ہے؟ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ عورت کو کلی طور پر آزاد نہ چھوڑا جائے، اس لیے نکاح کے معاملات میں بہت مصالح کے پیش نظر ولی کی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے۔ جو لوگ ولی کا ہونا بطور شرط تسلیم نہیں کرتے ان کا موقف انتہائی محل نظر ہے۔
(2) در حقیقت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اعتدال اور عدل و انصاف قائم کیا جائے لیکن ہمارے مجتہدین کرام نے ایک طرف تو بالغہ کو مطلق العنان کر دیا کہ وہ جب چاہے جس سے چاہے اپنا نکاح کرے، اسے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں۔ اور دوسری طرف یہ اندھیرنگری کہ اگر کوئی شخص دھوکے سے ایجاب و قبول کے الفاظ عورت سے کہلوائے جنھیں وہ سمجھتی ہو تو وہ بھی قید نکاح میں آ جائے گی اور اسے اس سے گلو خلاصی کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس افراط و تفریق کے درمیان اعتدال کا پہلو اختیار کیا ہے اور اس اعتدال کو احادیث سے ثابت کیا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ استنباط مسائل میں لوگوں کی مصلحتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ نصوص کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ آگے چل کر ایک دوسرا عنوان ان الفاظ سے قائم کرتے ہیں: (باب: لا ينكح الأب وغيره البكر و الثيب إلا برضاهما) ’’باپ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص کسی کنواری یا شوہر دیدہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کرسکتا۔‘‘ ان دونوں ابواب سے مقصود یہ ہے کہ نہ تو عورت مطلق العنان ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے اپنی شادی رچا لے اور نہ وہ اس قدر مجبور و مقہور ہی ہے کہ اس کا سرپرست جب چاہے جس سے چاہے اس کا نکاح کردے اور وہ مجبور ہو کر خاموش رہے بلکہ اس کی وضاحت کے لیے انھوں نے ایک مزید عنوان ان الفاظ سے قائم کیا ہے: (باب إذا زوج الرجل ابنته وهي كارهة فنكاحه مردود) ’’جب باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی کر دے جبکہ بیٹی اسے ناپسند کرتی ہو تو ایسا نکاح مردود ہے۔‘‘