قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 322 .

5130. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ قَالَ حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ قَالَ زَوَّجْتُ أُخْتًا لِي مِنْ رَجُلٍ فَطَلَّقَهَا حَتَّى إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا جَاءَ يَخْطُبُهَا فَقُلْتُ لَهُ زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ فَطَلَّقْتَهَا ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَا لَا وَاللَّهِ لَا تَعُودُ إِلَيْكَ أَبَدًا وَكَانَ رَجُلًا لَا بَأْسَ بِهِ وَكَانَتْ الْمَرْأَةُ تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ فَقُلْتُ الْآنَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن‏» ”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا‏» ”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم‏» ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“تشریح:روک رکھنے کا مطلب نکاح نہ کرنے دینا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روک رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتاان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے بعض علماء نے حدیث لا نکاح الا بولی کو بالغہ اور مجنون عورت کے ساتھ خاص کیا ہے اور ثیبہ یعنی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ میں حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسھا من ولیھا یعنی بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار ہے ۔اہلحدیث اور امام شافعی اور امام م احمد بن حمبل اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی شرط پر ہونے کی وجہ سے نہ لا سکے ہیں ایک ابوموسیٰ کی حدیث کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے ان کو صحیح کہا ابن ماجہ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا آپ نکاح کرے اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے اسی کا نکاح باطل ہے باطل ہے (وحیدی)

5130.

سیدنا معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ آیت ”عورتوں کو (نکاح کرنے سے ) مت روکو“ میرے متعلق نازل ہوئی۔ ہوایوں کہ میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی سے کر دیا، اس نے اسے طلاق سے دی۔ جب عدت ختم ہو گئی تو وہی شخص میری بہن سے دوبارہ نکاح کرنے کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تیرے ساتھ (اپنی بہن کا) نکاح کر دیا، اسے تیری بیوی بنایا اور تمہیں عزت دی لیکن تم نے اسے طلاق دے دی، اب پھر تم اس سے نکاح کا پیغام لے کر آئے ہو، اللہ کی قسم! اب ایسا ہر گز نہیں ہوگا، میں تمہیں وہ کسی صورت میں نہیں دوں گا۔ وہ شخص کوئی برا آدمی نہ تھا اور عورت کی بھی خواہش تھی کہ وہ اس کے پاس چلی جائے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”تم عورتوں کو (نکاح کرنے سے) مت روکو۔“ میں نے کہا اللہ کے رسول! میں ابھی اس پر عمل درآمد کرتا ہوں، چنانچہ اس نے اپنی ہمشیرہ کا نکاح اس سے کر دیا۔