تشریح:
(1) اس حدیث میں صراحت ہے کہ مذکورہ عورت بیوہ تھی۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ ایک انصاری نے خنساء بنت خدام سے نکاح کیا اور وہ غزوۂ اُحد میں شہید ہوگئے تو ان کے والد نے اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میرا نکاح میرے والد نے کر دیا ہےجبکہ میرا دیور جو میرے بچوں کا چچا ہے، مجھے پسند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد کا کیا ہوا نکاح مسترد کر دیا۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہما کی پہلے شوہر سے اولاد بھی تھی۔ (المصنف للعبد الرزاق: 148/6، رقم: 10309، طبع مؤسسة الرسالة، و فتح الباري: 245/9) بہرحال جس لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کردیا جائے تو اسے اپنا نکاح فسخ کرانے کا پورا پورا اختیار ہے، لڑکی خواہ کنواری ہویا شوہر دیدہ۔ اگرچہ کچھ روایات میں کنواری لڑکی کی بھی صراحت ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے زوجین کے درمیان تفریق کرا دی۔ (فتح الباري: 245/9) اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی کا نکاح اس کے والد نے کر دیا جبکہ وہ اس نکاح سے راضی نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح برقرار رکھنے کا اختیار دے دیا۔ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2096) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ منکوحہ بیوہ ہو یا کنواری اگر اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا جائے تو اسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔ والله اعلم