تشریح:
(1) شیطان کے تکلیف نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے باپ کے ساتھ اس کی ماں سے جماع میں وہ شریک نہ ہو سکے گا جیسا کہ امام مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آئے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان جماع میں شریک ہو جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس معنی کو"أقرب" قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 296/9)
(2) بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بچوں کی شکل و صورت تو ماں باپ جیسی ہوتی ہے لیکن عادات و خصائل شیطان جیسے ہوتے ہیں، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب کائنات کے چودھری کی بنیاد رکھی جا رہی ہوتی ہے تو حضرت انسان نفسا نفسی کے عالم میں اپنی شہوت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اللہ کے نام کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس نحوست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔ والله اعلم
(3) اس حدیث میں قضا و قدر کا ذکر ہے۔ قضا اجمالی طور پر امر کلی کا نام ہے جو ازل میں ثابت ہے جبکہ قدر اس کی تفصیلات کا نام ہے جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اس کے متعلق اشارہ ہے: ’’ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم انھیں ایک معلوم اندازے کے مطابق اتارتے ہیں۔‘‘ (الحجر: 21، و عمدة القاري: 123/14)