تشریح:
(1) دور حاضر ميں عالمی سطح پر منصوبہ بندی کے متعلق بہت پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عزل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس کی شرعی حیثیت واضح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک ضبط ولادت کی بنیاد روز اول ہی سے قوانین فطرت سے تصادم اور احکام شریعت سے بغاوت پر رکھی گئی ہے کیونکہ اس کے پس منظر میں یہ سوچ کار فرما ہے کہ زمینی پیداوار اور وسائل معاش انتہائی محدود ہیں اور اس کے مقابلے میں شرح پیدائش غیر محدود ہے، لہٰذا اس"بحران" پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کم ازکم پیدا کیے جائیں تاکہ معیار زندگی پست ہونے کے بجائے بلند ہو۔ لیکن قرآن کریم سرے سے اس انداز فکر ہی کو غلط قرار دیتا ہے اور بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ رزق دینا اللہ تعالیٰ کی ذمے داری ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے، وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ رازق بھی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔‘‘ (ھود: 6) انسان کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے خزانوں سے اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے محنت کرے۔ منصوبہ بندی کی یہ تحریک اس لیے بھی مزاج اسلام کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بے شمار دشمنوں میں گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمان ہر وقت خطرے میں پڑے رہیں، اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے بطور خاص حکم دیتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’تم نکاح کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرو جو زیادہ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ بچے زیادہ جننے والی ہوں، قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت امت کی بنا پر دیگر تمام انبیاء سے بڑھ کو ہوں گے۔‘‘ (مسند أحمد: 158/3) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ مجرد زندگی بسر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسند أحمد: 158/3) اللہ تعالیٰ نے مرد کو کاشتکار اور عورت کو اس کی کھیتی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔‘‘ (البقرة: 223) کوئی بھی عقلمندی اپنی کھیتی کو برباد نہیں کرتا بلکہ اس سے پیدا وار لینے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن منصوبہ بندی کی تحریک کا مقصد اس کھیتی کو بنجر اور بے کار کرنا ہے۔ دور جاہلیت میں اندیشۂ مفلسی اور حد سے بڑھے ہوئے جذبۂ غیرت کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے قتل کا طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آتے ہی اس ظالمانہ طریقے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
(2) مسلمانوں میں چند مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کا رجحان پیدا ہوا جس کی درج ذیل و جوہات تھیں: ٭ آزاد عورت سے اس لیے عزل کیا جاتا تھا کہ ان کے نزدیک استقرارحمل (حمل ٹھرنے) سے شیر خوار بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ٭لونڈی سے اس لیے کیا جاتا تھا کہ اس سے اولاد نہ ہو کیونکہ ام ولد ہونے کی صورت میں اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے اپنے پاس رکھنا ہوگا۔ چونکہ ابتدا میں عزل کے عدم جواز کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت نہ تھی، اس بنا پر بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کی ضرورت محسوس کی اور اس پر عمل بھی کیا جیسا کہ حضرت ابن عباس، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم کے متعلق روایات میں ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بعض صحابہ کے ذریعے سے اس کی خبر ہوئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اور آپ کی خاموشی کو رضا پر محمول کرتے ہوئے اس پر عمل کیا گیا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں عزل کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر پہنچی لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3561 (1440)) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف جوابات دیے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا تم واقعی ایسا کرتے ہو؟ قیامت تک جو بچے پیدا ہونے والے ہیں وہ تو پیدا ہو کر رہیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5209) ٭’’اگر تم ایسا نہ کرو تو تمھارا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438))٭ راوی کہتا ہے کہ "لا علیکم" کے الفاظ نہی کے زیادہ قریب ہیں۔ ایک دوسرا راوی کہتا ہے کہ اس انداز گفتگو کے ذریعے سے آپ نے عزل کے ارتکاب سے ڈانٹا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1438)) ٭’’تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438)) ٭ تم چاہو توعزل کرلو مگر جوبات تقدیر میں لکھی ہے وہ تو ہو کر رہے گی۔‘‘ (مسند أحمد: 312/3) ٭’’ایسا کرنا خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1442)) ان روایات کے پیش نظر اہل علم صحابۂ کرام اسے مکروہ خیال کرتے تھے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1138) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عزل کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) ان مختلف جوابات میں سے کسی ایک جواب کو چھانٹ کراس پرتحریک ضبط تولید کی بنیاد رکھنا عقل مندی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اسے انفرادی طور پر کسی مجبوری کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے لیکن لیکن ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز اس سے کشید نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک موجودہ تحریک اور عزل میں کئی طرح سے فرق کیا جا سکتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اپنے مخصوص حالات کی بنا پر عزل کرنا میاں بیوی کا ایک انفرادی معاملہ ہے، مثلاً: حمل ٹھہرنے میں عورت کی جان کو خطرہ ہو یا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں اگر کسی ماہر ایماندار ڈاکٹر کے مشورے سے ضبط ولادت کے لیے عزل یا کوئی اور جدید طریقہ اختیار کرلیا جائے تو جائز ہے اور میاں بیوی کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے لیکن ایک قومی پالیسی کے طور پر ان کے حقوق پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ بطور فیشن ہی اسے عمل میں لانے کی گنجائش ہے۔ ٭عزل پر عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی نہیں بلکہ متصور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439)) ان کے ہاں احتیاط کے باوجود حمل ٹھہرگیا تھا لیکن منصوبہ بندی کا جوطریق کار ہے اس کے مطابق عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی ہے، لہٰذا عزل کو منصوبہ بندی کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنا یا اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ ٭ جس عورت سے عزل کیا گیا ہو اگر اس کا خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق مل جائے تو طلب اولاد کے لیے اس سے شادی کی جا سکتی ہے، اس لیے کوئی رکاوٹ نہیں، جبکہ بعض حالات میں منصوبہ بندی پر عمل کرنے والی خاتون کے لیے یہ مشکل پیش آ سکتی ہے، یعنی اگر اس نے ہمیشہ کے لیے اولاد نہ ہونے والی ادویات یا آلات استعمال کیے ہیں تو اس سے اولاد کا طلبگار کیونکر شادی کرے گا۔ بہرحال منصوبہ بندی کے ناجائز اور حرام ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اگر تحریک منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کو لوگوں میں عام کر دیا جائے یا ایسے آلات و ادویات کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیا جائے جن سے مرد جنسی بے راہ روی سے باہم لذت اندوز تو ہوتے رہیں مگر حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ آج کل گلی کوچوں میں اس کے مراکز کھولے جا رہے ہیں اس کا انجام کثرت سے بے حیائی اور اخلاقی تباہی کی صورت میں رونما ہوگا جیسا کہ اب وہ ممالک اس تحریک منصوبہ بندی کے انجام بد سے چیخ رہے ہیں جن میں اس کا تجربہ کیا گیا ہے، لہٰذا ایک خود دار اور باغیرت مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس بے دینی اور بے حیائی پر مبنی تحریک کو سہارا دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔آمين