تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا پتا چلتا ہے کہ زوجۂ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ گم شدہ خاوند کا حال بھی گم شدہ چیز کی طرح ہے کہ بذریعۂ عدالت سال بھر اس کا اعلان کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں، بصورت دیگر عدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کر سکتی ہے۔ اب اگر دوران مدت یا دوران عدت میں اس کا خاوند آ جائے تو اسے اس کی بیوی مل جائے گی۔ اگر نکاح ثانی کر لینے کے بعد پہلا خاوند آیا تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔
(2) یہ بھی واضح رہے کہ تفتیش کے اخراجات بھی عورت کے ذمے ہیں بشرطیکہ وہ صاحب حیثیت ہو بصورت دیگر بیت المال تفتیش کے اخراجات برداشت کرے۔ اگر بیت المال موجود نہ ہو تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس ستم زدہ عورت کے لیے تعاون کریں اور تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کا بندوبست کریں۔ اگر عدالت اس معاملے کو بلا وجہ طول دے اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے اور فیصلہ دے تو ان کا فیصلہ بھی عدالت ہی کا فیصلہ ہوگا۔ واللہ اعلم.
(3) اس موقف پر ہم مولانا وحید الزمان کا موقف بھی پیش کرتے ہیں، وہ بھی قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اگر مفقود نے بلا عذر اپنے حالات مخفی رکھے اور عدالت کے لیے کسی قسم کے اخراجات کا بندوبست نہ کیا گیا تھا اور نہ کوئی جائیداد ہی چھوڑی تو قیاس کا تقاضا ہے کہ وہ واپس آنے کے بعد دوسرے خاوند سے نہیں لے سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکا اور اپنی بیوی کے لیے اخراجات کا بندوبست کر گیا تھا یا کوئی معقول جائیداد چھوڑ گیا تھا تو اسے اختیار ہونا چاہیے، خواہ اپنی عورت لے لے، خواہ دوسرے خاوند سے حق مہر وصول کرے جو اس نے اپنی بیوی کو دیا تھا۔