تشریح:
دوسری روایات میں اس روایت کی کچھ تفصیل نقل ہوئی ہے کہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں حجاج بن یوسف عراق کا امیر تھا۔ حضرت انس ؓ نے نمازوں کے متعلق اس کا طرز عمل دیکھا تو حاکم وقت سے اس کی شکایت کرنے کے لیے دمشق پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے دیکھا کہ خود حاکم وقت ولید بن عبدالملک اور اس کے دیگر امراء بھی اوقات نماز کے متعلق تساہل کا شکار ہیں تو حضرت انس ؓ بہت آزردہ خاطر ہوئے اور حالات کی خرابی دیکھ کر رونے لگے لیکن خلفائے بنو امیہ کے اس طرز عمل سے سارا عالم اسلام متاثر نہیں ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ میں نمازوں کے اوقات کی پابندی تھی کیونکہ حضرت انس ؓ شام کے سفر سے جب مدینہ منورہ واپس آئے تو انھوں نے اہل مدینہ کو دوران نماز میں تسویۂ صفوف کی طرف متوجہ فرمایا، نیز وہاں کے امیر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ تھے جو اوقات نماز کی پابندی کرتے تھے۔ ان سے ایک دن عصر کی نماز میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی تھی تو عروہ بن زبیر نے ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری ؓ کی روایت سنا کر اوقات نماز کی طرف توجہ دلائی تھی۔ امیر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اسے قبول کر کے اصلاح فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ اہل مدینہ کے متعلق اوقات نماز سے مطمئن تھے، صرف صفوں کو سیدھا کرنے کے سلسلے میں ان سے کوتاہی ہو رہی تھی جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔ (فتح الباري:20/2)