تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور اپنے نومولود کا انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق لعان کرایا، پھر بچہ عورت کے حوالے کر کے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4748)
(2) شوہر کی طرف سے چار قسمیں، چار گواہوں کے قائم مقام ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے آپ سے حد قذف (تہمت لگانے کی حد) کو دور کرے۔ شوہر کی طرف سے قسمیں اٹھانے کے بعد اگر عورت لعان نہ کرے تو اس پر حد واجب ہوگی۔ اگر اس نے لعان کیا اور قسم اٹھائی تو اس نے بھی خاوند کی طرح اپنے آپ کا دفاع کر لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ایک مشہور اختلافی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لعان قسم ہے یا شہادت! جمہور اہل علم اسے قسم کہتے ہیں جبکہ فقہائے اہل کوفہ کے نزدیک یہ شہادت ہے۔ اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہے کہ قسم ہونے کی صورت میں ہر قسم کے میاں بیوی کے درمیان لعان ہو سکتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، آزاد ہوں یا غلام اور شہادت کی صورت میں صرف ان میاں بیوی کے درمیان لعان ہوگا جو شہادت کے اہل ہیں۔ گواہی کے لیے ایمان اور آزادی بنیادی شرط ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اور پیش کردہ حدیث سے رجحان ظاہر کیا ہے کہ وہ جمہور اہل علم کے ہم نوا ہیں۔ واللہ أعلم