تشریح:
(1) اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ جب میاں بیوی لعان کر چکے ہوں تو صرف لعان سے دونوں میں علیحدگی واقع ہو گی یا لعان سے فراغت کے بعد حاکم وقت ان میں تفریق کرے یا پھر شوہر کی طلاق سے ان میں جدائی ہو گی۔ امام مالک شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف لعان ان کے درمیان علیحدگی کا باعث ہے جبکہ امام ثوری اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں اس وقت تک جدائی نہیں ہوگی جب تک حاکم وقت فیصلہ نہ کرے اس سلسلے میں عثمان البتی کا موقف ہے کہ جب تک شوہر جدا نہ کرے میاں بیوی میں علیحدگی نہیں ہوگی کیونکہ قرآن کریم میں علیحدگی کا کوئی ذکر نہیں اور ظاہر حدیث کے مطابق خاوند ہی نے اسے طلاق دے کر فارغ کیا ہے۔ (فتح الباري: 553/9) اس آخری انتہا کے مقابلے میں دوسری انتہا یہ ہے کہ قذف ہی سے علیحدگی ہو جائے گی، خواہ لعان کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جب میاں بیوی دونوں لعان سے فارغ ہوں گے تو خود بخود علیحدگی ہو جائے گی، خواہ حاکم تفریق نہ بھی کرے کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس شوہر پر حرام ہو چکی ہے، لہٰذا اگر وہ اکٹھے رہنا بھی چاہیں تو کسی صورت میں بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
(2) حدیث میں اگر شوہر کا طلاق دینا مذکور ہے لیکن اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی حکم نہیں دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی بات صراحت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش اس لیے رہے کہ اب علیحدگی تو ہوچکی ہے، خواہ طلاق دے یا نہ دے۔ یہ شخص جذبات میں آ کر اسے طلاق دے رہا تھا اور نفرت کے جذبات کا اظہار کر رہا تھا، اس لیے آپ خاموش رہے کہ ایسی عورت قابل نفرت ہی ہے۔ واللہ أعلم