تشریح:
(1) جس کھانے سے دو آدمی سیر ہو سکتے ہیں، اس پر تین آدمی بھی قناعت کر سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کا کھانا دو کے لیے، دو کا تین چار کے لیے اور چار کا پانچ چھ آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3255) طبرانی کی ایک روایت میں اس کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ مل کر اکٹھے کھانا کھاؤ اور جدا جدا ہو کر نہ کھاؤ کیونکہ ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، رقم: 7444، و سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم: 2691) اس سے معلوم ہوا کہ اجتماعیت میں برکت ہے۔ جس قدر اجماعیت زیادہ ہو گی برکت میں بھی اضافہ ہو گا۔
(2) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہمدردی میں برکت ہوتی ہے جس کا فائدہ تمام حاضرین کو ہوتا ہے، اس لیے کھانا کھاتے وقت اجتماعیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 663/9)