تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ ٹیک لگا کر نہ کھانا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، امت کے لیے منع نہیں ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ متکبرین کا فعل ہے، تاہم کسی عذر کی وجہ سے ٹیک لگا کر کھایا جا سکتا ہے، لیکن حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم، حضرت عبیدہ سلمانی، محمد بن سیرین، عطاء بن یسار اور امام زہری رحمہم اللہ مطلق طور پر ٹیک لگا کر کھانے کے قائل ہیں۔ (فتح الباري: 670/9) ہمارے رجحان کے مطابق ٹیک لگا کر کھانا کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ جائز اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا اور کراہت اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے خلاف ہے۔
(2) کھانے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ کھاتے وقت درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے: ٭ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے جیسا کہ تشہد میں بیٹھا جاتا ہے۔ ٭ دایاں گھٹنا کھڑا کر کے بایاں پاؤں زمین پر بچھا دے۔ (فتح الباري: 671/9)
(3) ٹیک لگا کر کھانے کی کراہت اس لیے ہے کہ اس سے پیٹ بڑھنے کا اندیشہ ہے جیسا کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اسلاف سے نقل کیا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 140/5)