تشریح:
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کا فوت ہونا گناہ کا باعث ہے، لیکن ایک غیر اختیاری فعل ہے اور غیراختیاری کام کے سرزد ہونے پر گناہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ جواب یہ ہے کہ فوات اگرچہ غیر اختیاری طور پر ہوا لیکن جن اسباب کی وجہ سے کوتاہی ہوئی وہ تواختیاری تھے۔ بالعموم نماز کا فوت ہونا کاروباری مصروفیات اور اہل وعیال میں مشغولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، حدیث میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ غیر اختیاری ہونے کے باوجود یہ معاملہ معمولی نہیں کہ اس کے متعلق کوتاہی کی جائے، نماز عصر کیا فوت ہوئی کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا۔ نماز عصر کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک توقرآن میں اس کی اہمیت وخصوصیت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، پھر پہلی امتوں نے بھی نماز عصر میں کوتاہی کی تھی، اس لیے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اس کی ادائیگی کے متعلق خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز عصر تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی لیکن انھوں نے تن آسانی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہ کیا، اس لیے تم میں سے جو انسان اس کی ادائیگی کا غیر معمولی اہتمام کرے گا، اسے اللہ کے ہاں دگنا اجر دیا جائے گا۔ (مسند أحمد:397/6) امام ترمذی ؒ نے مذکورہ حدیث کے مضمون کو سہوونسیان پر محمول کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نماز عصر سے سہو ہو جانے کا بیان۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب آخرت میں نماز عصر کے اہتمام پر اجرو ثواب دیا جائے گا تو اس کے متعلق سہوونسیان کاشکار ہونے والا انسان اس قدر افسوس کرے گا، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب تباہ ہوگئے ہوں۔ (فتح الباري:42/2) گویا امام بخاری ؒ نے اخروی حسرت و نقصان کو گناہ سے تعبیر کیا ہے۔ والله أعلم.