تشریح:
(1) دوسری نمازوں کے مقابلے میں نماز عصر کی کچھ خصوصیات ہیں، مثلا: نماز عصر اس امت کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی فرض تھی۔ (مسند أحمد:397/6) نیز قرآن کریم میں اسے(الصلاة الوسطٰى) قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ پھر اس کے فوت ہونے یا اس کے ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔ امام بخاری ؒ اب ایک دوسرے پہلو سے اس نماز کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، پہلے ترہیب تھی، اب اس کی فضیلت بیان کر کے ترغیب کے پہلو کو نمایاں کیا جا رہا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کے متعلق فجر کے علاوہ دیگر نمازوں پر فضیلت ثابت کرنا ہے۔ (فتح الباري: 45/2) اگرچہ اس روایت سے فجر اور عصر دونوں کی فضیلت یکساں معلوم ہوتی ہے، کیونکہ رؤیت باری تعالیٰ کی نعمت کے حصول میں دونوں نمازیں مؤثر ہیں، تاہم اس مقام پر نماز عصر کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سورۂ قٓ کی آیت تلاوت کرنے کے بجائے سورۂ طٰهٰ کی آیت:130 تلاوت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:573) جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ راوئ حدیث حضرت جریر ؓ نے بطور تائید ان آیات کو تلاوت کیا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1434(633)) اس سے پتا چلتا ہے کہ روایت کے آخر میں ادراج (راوی کی طرف سے بطور توضیح اضافہ) واقع ہوا ہے۔ والله أعلم.
(3) روایات میں وضاحت ہے کہ طلوع و غروب سے پہلے نماز سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم ، المساجد، حدیث 1434(633)) نماز فجر اور عصر کے متعلق خصوصی تاکید کی وجہ جہاں ان نمازوں کی دیگر خصوصیات ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ ان میں فجر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان کو نیند بہت پیاری ہوتی ہے اور نماز عصر کے وقت انسان اپنے کاروبار اور کام کاج میں مصروف ہوتا ہے، چنانچہ ان اسباب کے باوجود اگر کوئی ان نمازوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے تو دیگر نمازوں کی بالاولیٰ حفاظت کرے گا۔
(4) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں نمازوں کی حفاظت سے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کی سعادت نصیب ہو گی۔ آخرت میں اہل ایمان کے لیے رؤیت باری تعالیٰ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثبات میں بے شمار آیات، متعدداحادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع موجود ہے، لیکن معتزلہ، خوارج اور مرجیہ اس کے منکر ہیں۔ منکرین کے دلائل اور ان کے جوابات کتاب التوحید، حدیث:7434 میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله.