تشریح:
1۔ واقعہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوئے کہ زندگی سےمایوسی ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مال زیادہ ہے بیٹی ایک ہے سارے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مال کی وصیت سے روک دیا، اس مال سے صلہ رحمی اور اقربا پروری کی تلقین فرمائی۔ مذکورہ حدیث بھی اسی ضمن میں ارشاد فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ صدقہ صرف وہی نہیں جو غیر کو دیا جائے۔ بلکہ خود اپنے اوپر خرچ کر کے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حتی کہ بیوی کےمنہ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث اجرو ثواب ہے اگر نیت ثواب کی ہو۔ اگرچہ اس میں لذت کا پہلو اور طبیعت کا تقاضا بھی ہے۔
2۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز طور پر نفسانی خواہشات کی تکمیل سے بھی ثواب ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا قضائے شہوت میں بھی اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا تو گناہ گار نہ ہوتا۔‘‘ اندریں حالات اپنے محل میں یہ عمل باعث اجر کیوں نہ ہو۔ (فتح الباري: 181/1)
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تینوں احادیث کی ترتیب میں بھی عجیب اسلوب اختیار کیا ہے پہلی حدیث کا مرکزی اصول یہ ہے کہ شرعی عبادات میں نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اخلاص ہے تو ثواب، اگر نہیں تو عتاب، دوسری حدیث میں ہے کہ عام معاشرتی عادات کو حسن نیت سے عبادات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس پر اجروثواب بھی ملے گا۔ تیسری حدیث میں ہے کہ خواہشات نفسانی کی تکمیل اگر جائز طریقے سے ہو تو اس میں اجرو ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ گو اس میں حصول لذت بھی ہے اور طبیعت کا تقاضا بھی موجود ہے۔