باب:اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: What is said regarding the statement: "The reward of deeds depends upon the intention and hoping to get rewards from Allah.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور ( سورہ بنی اسرائیل میں ) اللہ نے فرمایا : ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے ۔‘‘ اور ( اسی وجہ سے ) آدمی اگر ثواب کی نیت سے خدا کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔
56.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں اس نفقے پر ضرور اجر دیا جائے گا جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔‘‘
تشریح:
1۔ واقعہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوئے کہ زندگی سےمایوسی ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مال زیادہ ہے بیٹی ایک ہے سارے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مال کی وصیت سے روک دیا، اس مال سے صلہ رحمی اور اقربا پروری کی تلقین فرمائی۔ مذکورہ حدیث بھی اسی ضمن میں ارشاد فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ صدقہ صرف وہی نہیں جو غیر کو دیا جائے۔ بلکہ خود اپنے اوپر خرچ کر کے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حتی کہ بیوی کےمنہ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث اجرو ثواب ہے اگر نیت ثواب کی ہو۔ اگرچہ اس میں لذت کا پہلو اور طبیعت کا تقاضا بھی ہے۔ 2۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز طور پر نفسانی خواہشات کی تکمیل سے بھی ثواب ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا قضائے شہوت میں بھی اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا تو گناہ گار نہ ہوتا۔‘‘ اندریں حالات اپنے محل میں یہ عمل باعث اجر کیوں نہ ہو۔ (فتح الباري: 181/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تینوں احادیث کی ترتیب میں بھی عجیب اسلوب اختیار کیا ہے پہلی حدیث کا مرکزی اصول یہ ہے کہ شرعی عبادات میں نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اخلاص ہے تو ثواب، اگر نہیں تو عتاب، دوسری حدیث میں ہے کہ عام معاشرتی عادات کو حسن نیت سے عبادات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس پر اجروثواب بھی ملے گا۔ تیسری حدیث میں ہے کہ خواہشات نفسانی کی تکمیل اگر جائز طریقے سے ہو تو اس میں اجرو ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ گو اس میں حصول لذت بھی ہے اور طبیعت کا تقاضا بھی موجود ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
56
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
56
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
56
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
56
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
بعض مرجیہ کا موقف ہے کہ زبانی اقرار ، ایمان کی ایک شکل ہے اور اخروی نجات کے لیے کافی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نیت کے بغیر کوئی عمل ثمر آور نہیں۔ زبانی اقرار اگرچہ ایک عمل ہے لیکن نیت کے بغیر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس عنوان کے تین حصے ہیں۔ 1۔نیت اعمال کے لیے ضروری ہے ۔2۔احتساب کے ساتھ نیت کرنا ثواب میں اضافے کا موجب ہے۔ 3۔ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ نتیجے کے طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نیت کے بغیر جب کوئی عمل معتبر نہیں ہوتا تو ایمان ،وضو ،نماز ،زکاۃ وغیرہ میں بھی نیت ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان بھی ایک عمل ہے، اس کے لیے بھی نیت کا ہونا ضروری ہے، اب ان دعاوی کے ثبوت کے لیے قرآن کی آیت اور دو اطراف حدیث پیش کی ہیں پھر تین احادیث ذکر کی ہیں۔1۔(قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ) ہر شخص کا عمل اس کی نیت کے مطابق ہوتا ہے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اچھی نیت سے کام کرتا ہے تو ثواب اور اگر بری نیت سے کرتا ہے تو عتاب ، بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جنھیں اپنے طبعی تقاضوں کی وجہ سے سر انجام دیا جاتا ہے پس ان میں ثواب و عتاب کا کوئی تصور شامل نہیں ہوتا۔2۔اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا انسان کی ذمے داری ہے لیکن اگر ثواب کی نیت کر لی جائے تو اس میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اگر نیت اچھی ہے تو خود اپنے آپ پر خرچ کر کے بھی ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔3۔جہاد اور نیت کے باقی رہنے کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمائی،یعنی اس فتح کے بعد ہجرت ختم ہو چکی ہے لیکن ثواب حاصل کرنے والوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ جہاد اور نیت قیامت تک رہنے والی چیزیں ہیں اس راستے سے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور ( سورہ بنی اسرائیل میں ) اللہ نے فرمایا : ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے ۔‘‘ اور ( اسی وجہ سے ) آدمی اگر ثواب کی نیت سے خدا کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں اس نفقے پر ضرور اجر دیا جائے گا جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ واقعہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوئے کہ زندگی سےمایوسی ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مال زیادہ ہے بیٹی ایک ہے سارے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مال کی وصیت سے روک دیا، اس مال سے صلہ رحمی اور اقربا پروری کی تلقین فرمائی۔ مذکورہ حدیث بھی اسی ضمن میں ارشاد فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ صدقہ صرف وہی نہیں جو غیر کو دیا جائے۔ بلکہ خود اپنے اوپر خرچ کر کے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حتی کہ بیوی کےمنہ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث اجرو ثواب ہے اگر نیت ثواب کی ہو۔ اگرچہ اس میں لذت کا پہلو اور طبیعت کا تقاضا بھی ہے۔ 2۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز طور پر نفسانی خواہشات کی تکمیل سے بھی ثواب ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا قضائے شہوت میں بھی اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا تو گناہ گار نہ ہوتا۔‘‘ اندریں حالات اپنے محل میں یہ عمل باعث اجر کیوں نہ ہو۔ (فتح الباري: 181/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تینوں احادیث کی ترتیب میں بھی عجیب اسلوب اختیار کیا ہے پہلی حدیث کا مرکزی اصول یہ ہے کہ شرعی عبادات میں نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اخلاص ہے تو ثواب، اگر نہیں تو عتاب، دوسری حدیث میں ہے کہ عام معاشرتی عادات کو حسن نیت سے عبادات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس پر اجروثواب بھی ملے گا۔ تیسری حدیث میں ہے کہ خواہشات نفسانی کی تکمیل اگر جائز طریقے سے ہو تو اس میں اجرو ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ گو اس میں حصول لذت بھی ہے اور طبیعت کا تقاضا بھی موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس میں ایمان، وضو، نماز، زکاۃ، حج، روزہ اور دوسرے احکام بھی شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کہہ دیجیے: ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل پیرا ہے۔‘‘ شاکلہ کے معنی نیت ہیں۔ اور انسان کا اپنے اہل و عیال پر بہ نیتِ ثواب خرچ کرنا صدقہ ہے۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عامر بن سعد نے سعد بن ابی وقاص سے بیان کیا، انھوں نے ان کو خبر دی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'd bin Abi Waqqas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "You will be rewarded for whatever you spend for Allah's sake even if it were a morsel which you put in your wife's mouth."