تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نماز مغرب عموماً اول وقت ہی پڑھتے تھے۔ بلاوجہ اتنی تاخیر کرنا کہ ستاروں کا جال آسمان پر پھیل جائے، ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے۔ امام بخاری ؒ کا حدیث ابن عباس ؓ سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ نماز مغرب کا اول وقت سورج غروب ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے، تاہم اگرکسی دینی مصروفیت کی وجہ سے مغرب میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس کی گنجائش ہے۔ جیسا کہ ابن عباس ؓ کی ایک تفصیلی روایت میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن شفیق فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عصر کے بعد وعظ کہنا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور آسمان پر ستارے نکل آئے۔ آپ نے اپنے وعظ کو جاری رکھا۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا:الصلاة، الصلاة، نماز، نماز، یعنی اس کا وقت جارہا ہے، اسے ادا کرلیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا کہ ایسے مواقع پر تاخیر کی جاسکتی ہے۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ظہر وعصر کی آٹھ رکعت اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک ساتھ پڑھی تھیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1636(705))
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مغرب کا وقت غروب آفتاب سے وقت عشاء تک ممتد رہتا ہے۔ اور اس کا آخری وقت عشاء کے اول وقت سے متصل ہے اوردرمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض نے درمیان میں وقت مشترک نکالنے کی کوشش کی ہے۔ والله أعلم.