تشریح:
(1) حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ بادل نخواستہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا کیونکہ آپ کی خواہش تھی کہ وہ بڑوں کے لیے ایثار کرتا، مگر اس نے ایسا نہ کیا تو آپ نے بھی حق و انصاف کا خون کرنا پسند نہ فرمایا۔ ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دائیں جانب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پینے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پیا۔ (سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3426)
(2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو بائیں جانب پر ترجیح حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تبرک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دینے کی خواہش ظاہر کی۔ اس میں بڑی عمروں کا احترام ملحوظ تھا۔
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب عزت افزائی کا کوئی موقع حاصل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اس کے حصول کے لیے ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو۔