قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَشْرِبَةِ (بَابُ الشُّرْبِ مِنْ قَدَحِ النَّبِيِّ ﷺ وَآنِيَتِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ: «أَلاَ أَسْقِيكَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ النَّبِيُّ ﷺفِيهِ»

5638. حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، قَالَ: رَأَيْتُ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَدْ انْصَدَعَ فَسَلْسَلَهُ بِفِضَّةٍ، قَالَ: وَهُوَ قَدَحٌ جَيِّدٌ عَرِيضٌ مِنْ نُضَارٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: «لَقَدْ سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا القَدَحِ أَكْثَرَ مِنْ كَذَا وَكَذَا» قَالَ: وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: إِنَّهُ كَانَ فِيهِ حَلْقَةٌ مِنْ حَدِيدٍ، فَأَرَادَ أَنَسٌ أَنْ يَجْعَلَ مَكَانَهَا حَلْقَةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، فَقَالَ لَهُ أَبُو طَلْحَةَ: لاَ تُغَيِّرَنَّ شَيْئًا صَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَرَكَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :

5638.

حضرت عاصم احول سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺ کا پیالہ دیکھا جو ٹوٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑ دیا۔ حضرت عاصم نے کہا کہ وہ پیالہ عمدہ، فراخ اور نضار کے درخت سے بنا ہوا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد دفعہ اس سے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس پیالے میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی کا حلقہ لگا دیں تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں پھر انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کر دیا۔