صحیح بخاری
2. کتاب: ایمان کے بیان میں
44. باب:آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمابرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
Sahi-Bukhari
2. Belief
44. Chapter: The statement of the Prophet (saws): Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad (saws)), to the Muslim rulers, and to all the Muslims
باب:آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمابرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The statement of the Prophet (saws): Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad (saws)), to the Muslim rulers, and to all the Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ترجمۃ الباب : اور اللہ نے ( سورہ توبہ میں) فرمایا:’’ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔‘‘
58.
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔
تشریح:
1۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر تھے۔ جب مغیرہ کی وفات ہونے لگی تو انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور حالات پر کنٹرول کرنے کی وصیت فرمائی کیونکہ عام طور پر عوام الناس حکمران کی وفات پر خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں خاص طور پر کوفے کی سرزمین جو فتنوں کی آماجگاہ تھی۔ ( فتح الباري: 184/1) 2۔ خیر خواہی کے لیے مسلمان کی پابندی اغلبیت کے لحاظ سے ہے، ویسے کافروں کے ساتھ بھی خیر خواہی کرنی چاہیے انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور جب وہ مشورہ لیں تو ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، البتہ بیعت کا سلسلہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔ (فتح الباري: 184/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الایمان کے آخر میں لاکر اشارہ کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع و تدوین میں لوگوں کی خیر خواہی کی ہے۔ صرف ان احادیث کو جمع کیا ہے جو معیار محدثین پر پوری اترتی ہیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت رہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
58
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
58
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
58
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
58
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دین و ایمان کا اتحاد پہلے ثابت کر چکے ہیں لہٰذا الدین النصیحۃ سے الایمان النصیحۃ ہو گیا یعنی ایمان خیر خواہی کا نام ہے۔ یہ اس بنا پر بھی کہ ایمان اور نصیحت میں بہت گہرا تعلق ہے چونکہ نصیحت کے درجات مختلف ہیں اس لیے ایمان کے درجات مختلف ہو گئے۔اس سے ایمان کی کمی بیشی کا مسئلہ بھی صاف ہو گیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بطور عنوان رکھا ہے حدیث چونکہ ان کی شرط کے مطابق نہ تھی اس لیے متین میں اسے نہیں لائے اور اس کمی کی تلافی قرآنی آیت سے فرما دی۔ آیت کریمہ میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو غزوہ تبوک میں کسی شرعی عذر کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ اللہ نے فرمایا:اگر ایسے محسنین جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کا سابقہ کردار اللہ اور اس کے رسول سے خیر خواہی کا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دلوں میں جہاد کی تڑپ مجاہدین سے محبت دشمنان اسلام سے عداوت ہو اور حتی المقدور احکام شریعت کی اطاعت کرتے رہے ہوں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کے آخر میں یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض مسلمانوں کی خیر خواہی اور ہمدردی کے پیش نظر ہے۔ اس کے پس منظر میں ہرگز کسی سے عناد یا تعصب نہیں۔ہماری نیت میں اخلاص ہے اور اصلاح احوال مقصود ہے واللہ اعلم اللہ کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اور اوامر ونواہی فرما نبرداری کی جائے۔ رسول سے خواہی یہ ہے کہ اس کی انتہائی تعظیم و تکریم کی جائے اسے اللہ کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے اس کی با ت کو آخری اتھارٹی کے طور پر مانا جائے۔ اہل اسلام حکمرانوں سے خیرخواہی یہ ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کا کہا مانا جائے۔کفر بواح کے علاوہ کسی صورت میں بھی ان سے بغاوت نہ کی جائے ۔عامۃ المسلمین سے خیر خواہی یہ ہے کہ انھیں دین سکھا یا جائے ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رواج دیا جائے نیز ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ترجمۃ الباب : اور اللہ نے ( سورہ توبہ میں) فرمایا:’’ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر تھے۔ جب مغیرہ کی وفات ہونے لگی تو انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور حالات پر کنٹرول کرنے کی وصیت فرمائی کیونکہ عام طور پر عوام الناس حکمران کی وفات پر خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں خاص طور پر کوفے کی سرزمین جو فتنوں کی آماجگاہ تھی۔ ( فتح الباري: 184/1) 2۔ خیر خواہی کے لیے مسلمان کی پابندی اغلبیت کے لحاظ سے ہے، ویسے کافروں کے ساتھ بھی خیر خواہی کرنی چاہیے انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور جب وہ مشورہ لیں تو ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، البتہ بیعت کا سلسلہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔ (فتح الباري: 184/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الایمان کے آخر میں لاکر اشارہ کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع و تدوین میں لوگوں کی خیر خواہی کی ہے۔ صرف ان احادیث کو جمع کیا ہے جو معیار محدثین پر پوری اترتی ہیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت رہے۔
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیرخواہی کا تعلق رکھیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انھوں نے زیاد سے، انھوں نے علاقہ سے، کہا میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ (حاکم کوفہ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ (مغیرہ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ ﷺ نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔
حدیث حاشیہ:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیرومرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے
حضرت مغیرہ امیرمعاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انھوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شروفساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ ؓ نے حضرت مغیرہؓ کے بعد زیاد کوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر ؓکی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ غفرالله له آمین۔ صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔‘‘ (ایضاح البخاری، ص: 428) امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والنصيحة من نصحت العسل إذا صفّيته من الشمع أو من النصح وهو الخياطة بالمنصحة." یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا نصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ (الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ziyad bin'Ilaqa (RA): I heard Jarir bin 'Abdullah (Praising Allah). On the day when Al-Mughira bin Shu'ba died, he (Jarir) got up (on the pulpit) and thanked and praised Allah and said, "Be afraid of Allah Alone Who has none along with Him to be worshipped.(You should) be calm and quiet till the (new) chief comes to you and he will come to you soon. Ask Allah's forgiveness for your (late) chief because he himself loved to forgive others." Jarir added, "Amma badu (now then), I went to the Prophet (ﷺ) and said, 'I give my pledge of allegiance to you for Islam." The Prophet (ﷺ) conditioned (my pledge) for me to be sincere and true to every Muslim so I gave my pledge to him for this. By the Lord of this mosque! I am sincere and true to you (Muslims). Then Jarir asked for Allah's forgiveness and came down (from the pulpit).