تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ طلوع شمس سے مراد اس کا خوب بلند ہونا ہے، علاوہ ازیں حدیث میں نماز کے متعلق دواوقات کا بیان ہے جبکہ عنوان میں نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز سے منع رہنے کا حکم ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے اور فجر کےبعد طلوع آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر نماز نہیں پڑھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف نماز فجر کے بعد نماز کے منع ہونے کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:77/2)
(2) اس حدیث میں صرف دو اوقاتِ مکروہ کا ذکر ہے جبکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اوقات مکروہ پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک۔٭نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔٭عین طلوع آفتاب۔٭استواء آفتاب، یعنی عین دوپہر کے وقت۔٭عین غروب آفتاب۔ ان میں سے پہلے دو اوقات کو نماز فجر اور نماز عصر سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت وقت کی وجہ سے نہیں کہ وقت کی ذاتی خرابی کی بنا پر ان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ فرض نماز کے حق کی بنا پر ہے تاکہ تمام وقت فرض نماز کے لیے وقف ہو۔ اگر وقت کی ذاتی خرابی بنا پر کراہت ہوتی تو فجرو عصر کی تاخیر طلوع غروب سے قبل تک جائز نہ ہوتی۔ اور آخری تین اوقات ممنوعہ ان کی ذاتی خرابی کی بنا پر ہیں، کیونکہ طلوع غروب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اور عین دوپہر کے وقت جہنم جوش میں ہوتی ہے جو غضب الہٰی کا مظہر ہے، نیز اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام اوقات مکروہ میں ایسے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جو کسی سبب سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ شریعت نے ان کے متعلق کوئی ترغیب ہی دی ہے، البتہ ان اوقات میں فوت شدہ نمازیں، نماز جنازہ اور ایسے نوافل پڑھے جاسکتے ہیں جو کسی سبب سے وابستہ ہیں اور شریعت نے انھیں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے. جیسا کہ تحیۃ المسجد وغیرہ۔ ایسے نوافل کو فقہی اصطلاح میں ذوات الاسباب کہا جاتا ہے۔
(3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں قتادہ راوی نے ابو العالیہ سے جب روایت بیان کی تو اس میں سماع کی صراحت نہ تھی، اس لیے امام بخاری نے ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں تصریح سماع ہے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ تصریح سماع والی روایت ہی کو بیان کردیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تصریح سماع والی روایت میں واسطے زیادہ تھے، اس لیے وہ ان کے نزدیک نازل سند تھی۔ پہلی روایت جس میں تصریح سماع نہیں وہ عالی سند سے بیان ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بنیاد بنایا ہے اور اس پر جو اعتراض ہوسکتا تھا اسے دور کرنے کے لیے دوسری سند بیان کردی۔ (عمدة القاري: 110/4)