تشریح:
(1) اس واقعے کی ابتدا حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر سے ہوئی تھی، پھر اس کی ادائیگی پر دوام سیدہ عائشہ ؓ کے گھر میں ہوا۔ یہی وجہ ہےکہ اگر کسی موقع پر ان رکعات کے متعلق تحقیق کی گئی تو آپ نے حضرت ام سلمہ ؓ کا حوالہ دیا اور آپ نے خود ان کے متعلق پوری ذمے داری نہیں اٹھائی، چنانچہ عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے دیکھا اور وہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ کا حوالہ دیتے تھے کہ جب بھی نبی ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آتے آپ انھیں ضرور ادا فرماتے اور اسے حضرت عائشہ ؓ نے خود بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1631) حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ عصر کے بعد ان دورکعات کی ادائیگی کا بڑی شدت سے اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ آپ کے اس عمل کے متعلق تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اگرچہ عبداللہ بن زبیرؓ حضرت عائشہ ؓ کا حوالہ دیتے ہیں، تاہم اصل تحقیقی خبر حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس ہے۔
(2) اس سے متعلق دو تفصیلی روایات مسند احمد (6/299 اور6/303) میں موجود ہیں۔ ان تفصیلی روایات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عصر کے بعد دورکعت پڑھنا اور اس پر دوام کرنا آپ کی خصوصیت پر محمول ہے، لیکن عبداللہ بن زبیر ؓ اسے بطور اسوہ اور نمونہ خیال کرتے ہوئے اس عمل پر زندگی بھر کاربند رہے۔ سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ انھیں غروب آفتاب سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:582) والله أعلم بحقيقة الحال.