تشریح:
(1) ایک روایت بایں الفاظ ہے: جو بھول جائے یا سوجائے تو جب بھی یاد آئے یا بیدار ہو تو فوت شدہ نماز ادا کرے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1568(684)) ایک روایت میں ہے کہ ’’اگلے دن اسے اپنے وقت پر پڑھے۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاة، حدیث:437) اس اضافے سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ فوت شدہ نماز کو دو مرتبہ ادا کرے:ایک مرتبہ جب یاد آئے اور پھر دوسرے دن اسے اپنے وقت پر بھی پڑھے۔ لیکن حدیث کے الفاظ اس کے متعلق نص صریح کی حیثیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ آئندہ دن موجودہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے، سستی سے کام نہ لے، ایسا نہ ہوکے اگلے دن پھر بروقت نہ پڑھ سکے اور یہی معنی راجح ہیں۔ اور جہاں تک ابو داود کی حدیث (438) کا تعلق ہے، جس میں دوبارہ نماز ادا کرنے کی صراحت ہے تو وہ شاذ ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (ضعيف سنن أبي داود للألباني، حديث:41)
(2) امام بخاری ؒ نے أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي کے متعلق دوقراءتوں کا ذکر کیا ہے: ٭ابو نعیم اور موسیٰ بن اسماعیل کے بیان کے مطابق لفظ "ذکر" یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔٭صرف موسیٰ کے بیان کے مطابق یہ لفظ اسم مقصور ہے، یعنی آخر میں یائے متکلم کے بجائے الف مقصورہ ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کسی راوی نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔ لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ ﷺ نے اسے تلاوت فرمایا، چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جو شخص نماز سے سورہے یا غفلت کرے تو اسے چاہیے کہ یاد آنے پر اسے پڑھ لے۔‘‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’میری یاد کےلیے نماز قائم کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1569(684)) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ آیت کریمہ کی تلاوت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے، نیز امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کر کے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ قتادہ کا حضرت انس ؓ سے سماع ثابت ہے۔ اس تعلیق کو محدث ابو عوانہ نے اپنی"صحیح" میں متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:95/2)