تشریح:
(1) اس حدیث میں قتات کے الفاظ ہیں جبکہ ایک روایت میں نمام مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:290(105)) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتات اور نمام کے ایک ہی معنی (چغل خور) ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ان میں یہ فرق ہے کہ نمام مجلس میں حاضررہ کر وہاں کی باتیں دوسروں کو بتاتا ہے جبکہ قتات چوری چھپے سن کر باتیں آگے پہنچاتا ہے۔
(2) بہرحال لوگوں میں فساد ڈالنے کی غرض سے ایک دوسرے کی باتیں اِدھر اُدھر نقل کرنا اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ اس قسم کی احادیث کو اسی طرح بغیر تأویل کے بیان کرنا چاہیے جس طرح نقل ہوئی ہیں تاکہ لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب نہ کریں، اگرچہ یہ سزا زجر وتہدید پر محمول ہے اور ان کے معنی یہ ہیں کہ اس قسم کے کام کرنے والا ابتدائی طور پر جنت میں نہیں جائے گا، البتہ سزا بھگتنے کے بعد اس کے متعلق جنت کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ قرآن میں جنت میں نہ جانے کی سزا صرف مشرک کے لیے ہے۔واللہ أعلم