قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ الهِجْرَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: «لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ»

6073.02. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الحَارِثِ، - وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا - أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ: فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ، أَنْ لاَ أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا. فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا، حِينَ طَالَتِ الهِجْرَةُ، فَقَالَتْ: لاَ وَاللَّهِ لاَ أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا، وَلاَ أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي. فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، كَلَّمَ المِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لاَ يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي. فَأَقْبَلَ بِهِ المِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا، حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالاَ: السَّلاَمُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ أَنَدْخُلُ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا، قَالُوا: كُلُّنَا؟ قَالَتْ: نَعَمِ، ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، وَلاَ تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الحِجَابَ، فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ المِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ، وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولاَنِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الهِجْرَةِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ» فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ، طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي نَذَرْتُ، وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالاَ بِهَا حَتَّى كَلَّمَتْ ابْنَ الزُّبَيْرِ، وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے )تشریح : یہاں دنیاوی جھگڑوں کی بنا پر ترک ملاقات مراد ہے۔ ویسے فساق فجار اور اہل بدعت سے ترک ملاقات کرنا جب تک وہ تو بہ نہ کریں درست ہے ۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءدہلوی حضرت ضیاءالدین سنامی کی عیادت کو گئے جو سخت بیمار تھے اور اطلاع کرائی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بدعتی فقیروں سے نہیں ملتا ہوں چونکہ حضرت سلطان المشائخ کبھی کبھی سماع میں شریک رہتے اور مولانااس کو بدعت اورناجائز سمجھتے تھے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کہا مولانا سے عرض کرو میں نے سماع سے توبہ کرلی ہے۔ یہ سنتے ہی مولانا نے فرمایا میرے سر کا عمامہ اتار کر بچھا دو اور سلطان مشائخ سے کہو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لاویں معلوم ہوا کہ اللہ والے علمائے دین نے ہمیشہ بد عتیوں سے ترک ملاقات کیا ہے اور حدیث الحب للہ والبغض للہ کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم ( وحیدی

6073.02.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بیچی یا خیرات کی، انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے: اللہ کی قسم! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (خرید فروخت کرنے یا خیرات کرنے سے) اگر باز نہ آئیں تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا عبداللہ نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد جب قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں سفارش کرائی لیکن انہوں نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! میں اس کے متعلق کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذر ختم نہیں کروں گی جب عبداللہ بن ذبیر رضی اللہ عنہ کے لیے سلام وکلام کی بندش بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں گفتگو کی وہ دونوں بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھےـ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں مجھے تم کسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے جاؤ کیونکہ ان کے لیے جائز نہیں کہ میرے ساتھ قطع رحمی کی نذر مانیں، چنانچہ حضرت مسور اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ دونوں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته کہتے ہوئے عرض کی: ہم اندر آ سکتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آ جاؤ۔ انہوں نے پھر عرض کی: ہم سب آ جائیں۔ فرمایا ہاں سب آ جاؤ۔ آپ کو علم نہیں تھا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب وہ داخل ہوئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پردے کے اندر چلے گئے (کیونکہ وہ بھانجے تھے اور رونے لگے۔ حضرت مسور اور عبدالرحمن ؓ بھی (پردے کے باہر سے) آپ کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے گفتگو کریں اور ان سے در گزر فرمائیں۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا: آپ کو معلوم ہے کہ نبی ﷺ نے قطع تعلقی سے منع فرمایا ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کسی مسلمان کو اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رہنا جائز نہیں۔ جب انہوں نے کثرت کے ساتھ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬و صلہ رحمی کی اہمیت یاد دلائی اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی انہیں وعظ ونصحیت فرمائی اور روتے ہوئے کہنے لگیں: میں نے تو نذر مانی ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا سخت دشوار ہے لیکن یہ دونوں بزرگ بار بار کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ام المومنین (سیدہ عائشہ ؓ)نے حضرت ابن زبیر ؓ سے گفتگو فرمائی اور اپنی نذر میں چالیس غلام آزاد کیے۔ ا سکے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو روتیں حتیٰ کہ آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔