تشریح:
(1) اذان بآواز بلند کہنا اپنے اندر بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ حکم جنگل کی اذان میں بھی وارد ہے۔ اگر وہاں انسان نہ ہوں، تب بھی وہاں جہاں تک آواز پہنچے گی اس کو سننے والے قیامت کے دن گواہی دیں گے، لیکن اس بلند آواز میں نغمہ سرائی کا پہلو بالکل نہیں ہونا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی اذان دے سکتا ہے۔ سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنگل میں نماز پڑھے تو اس کے دائیں بائیں فرشتے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کے برابر کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (موطأ إمام مالك، باب النداء في السفر، حدیث:164) (2) ایک حدیث میں ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب پچیس گنا ہے اور اگر جنگل میں رکوع وسجود اچھی طرح کرکے پڑھے تو اسے پچاس گنا ثواب ملے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:560) لیکن یہ اجرو ثواب کسی اتفاقی صورت کے لیے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلا وجہ آبادی کی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ ثواب لینے کی نیت سے کسی جنگل کا رخ کرے اور وہاں نمازیں شروع کردے۔ اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو اسلاف سے ضرور منقول ہوتا۔ والله أعلم.