تشریح:
(1) کسی کو کافر کہنا یا اسے کافر قرار دینا ''تکفیر'' کہلاتا ہے۔ اہل حدیث حضرات نے مسئلہ تکفیر میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ بہت نزاکت کا حامل ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جس نے ایک کو ضرور کاٹ دینا ہے۔ جس انسان کو کافر کہا گیا ہے اگر وہ فی الحقیقت کافر نہیں تو یہ کفر، کہنے والے پر لوٹ آئے گا، یعنی کہنے والا کافر ہو جائے گا لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب کہنے والا کسی قسم کی تاویل کے بغیر اسے کافر کہتا ہے۔ اگر وہ دوسرے کو کافر کہنے کے لیے اپنے پاس کوئی معقول وجہ رکھتا ہے تو پھر کسی کو کافر کہنے والا خود کافر نہیں ہو گا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے اطلاق کو ''معقول تاویل'' کے ساتھ مقید کیا ہے۔
(3) ہمارے اسلاف اس سلسلے میں بڑے محتاط تھے۔ وہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے تھے۔ انہوں نے مسئلہ تکفیر کے کچھ قواعد و ضوابط مقرر کیے ہیں، اس کے اسباب و شرائط سے ہمیں آگاہ کیا ہے اور موانع کی بھی نشاندہی کی ہے۔ جب تک کسی میں ایسی شرائط نہ پائی جائیں کہ اسے کافر قرار دیا جا سکے اور وہاں کوئی مانع بھی نہ ہو تو قطعی طور پر کسی کو کافر کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔