تشریح:
(1) عنوان بندی کے متعلق امام بخاری ؒ کا یہ طریقہ ہے کہ جب اختلاف روایات یا اختلاف فقہاء قوی ہو تو عنوان میں اپنی طرف سے کوئی واضح کم بیان نہیں کرتے۔ چونکہ جواب اذان کے متعلق مختلف قسم کی روایات ہیں۔ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جواب اذان میں بعینہ مؤذن کے الفاظ دہرا دیے جائیں جبکہ دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر لا حول ولا قوة الا بالله پڑھا جائے۔ان روایات کے پیش نطر علمائے امت کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جواب میں بعینہ مؤذن کے الفاظ کہنے سے متعلق روایات مجمل ہیں اور جن روایات میں لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھنے کا ذکر ہے وہ مفصل ہیں، لہٰذا قاعدے کےمطابق مجمل کو مفصل پر محمول کیا جائے گا اور بعینہ مؤذن کے الفاظ دہرانے کے بجائےحي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر لا حول ولا قوة إلا بالله کے الفاظ کہے جائیں گے، جبکہ کچھ علماء کا موقف ہے تمام اذان کے جواب میں مؤذن کے الفاظ ہی پڑھے جائیں۔ دراصل جہاں کسی سلسلے میں مختلف روایات ہوں وہاں کبھی تو اختلاف تضاد ہوتا ہے کہ ایک پرعمل جائز اور دوسری ناجائز، اور کبھی اختلاف تنوع ہوتا ہے۔ تنوع کی صورت میں کبھی تخبیر، یعنی ہر روایت پر عمل درست ہوگا کہ عمل کے لیے کسی ایک کو اختیار کرلیا جائے اور کبھی جمع کی صورت ہوگی کہ دونوں پر بیک وقت عمل کرلیا جائے۔ (2) اذان کے جواب کے متعلق تین صورتیں ممکن ہیں: ٭بعینہ وہی کلمات دہرائے جائیں جو مؤذن کہتا ہے۔٭حي على الصلاة اورحي على الفلاح پرلاحول ولا قوة الا بالله پڑھا جائے اور باقی کلمات مؤذن کی طرح کہے جائیں۔٭حي على الصلاة اورحي على الفلاح پر یہ کلمات بھی کہے جائیں اور لاحول ولا قوة إلا بالله بھی کہا جائے۔ جمہور فقہاء نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے انداز بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے حدیث ابو سعید کو پہلے بیان کیا ہے جس میں اجمال ہے، پھر اس کے بعد حدیث معاویہ لائے ہیں جس میں تفصیل ہے تاکہ اس کے ذریعے سے پہلی روایت کے اجمال کو کھولا جائے، چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب مؤذن الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے اور تم میں سے کوئی اس کے جواب میں الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے، پھر مؤذن أشهد أن لا إله إلا الله کہتا ہے تو جواب میں بھی أشهد أن لا إله إلا الله کہتا ہے، پھر وہ أشهد أن محمداً رسول الله کہتا ہےتو جواب میں بھی أشهد أن محمداً رسول الله کہتا ہے، پھر جب وہ حي على الصلاة کہتا ہے تو جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھتا ہے، پھر وہ حي على الفلاح کہتا ہے تو جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله کہتا ہے، پھر مؤذن الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے تو وہ جواب میں بھی الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے، آخر میں جب مؤذن لا إله إلا الله کہتا ہے تو جواب میں لا إله إلا الله کہتا ہے، اگر اس نے جوابی کلمات صدق دل سے کہے تو وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:850(385)) اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کا جواب دیتے وقت دوسری صورت اختیار کیا جائے۔