تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ مؤذن جب حي على الصلاة اور حي على الفلاح کہے تو اس کے جواب میں لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہنا چاہیے۔اس سلسلے میں انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے جو انتہائی مختصر ہے۔اس کی تفصیل ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے تو مؤذن نے اذان دی اور کہا: الله أكبر، الله أكبر آپ نے اس کے جواب میں الله أكبر، الله أكبر کہا۔ مؤذن نے أشهد أن لا إله إلا الله کہا تو آپ نے جواب میں کہا: میں بھی (توحید کی گواہی دیتا ہوں) مؤذن نے کہا۔أشهد أن محمداً رسول الله آپ نے جواب دیا:میں بھی (رسالت کی گواہی دیتا ہوں) جب مؤذن اپنی اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا:اے لوگو!میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مقام پر بیٹھے ہوئے سنا، جب مؤذن نے اذان دی تھی تو آپ نے وہی کلمات کہے جو آپ نے مجھے کہتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:914) لیکن اس روایت میں وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہوتا ہے۔ ایک روایت حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے بیان کی ہے اس میں مزید تفصیل ہے۔ عیسیٰ بن طلحہ ؒ کہتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے پاس گئے، مؤذن نے اذان دی اور کہا:الله أكبر، الله أكبر حضرت معاویہ ؓ نے بھی کہا:الله الله أكبر، الله أكبر مؤذن نے أشهد أن لا إله إلا الله کہا تو حضرت امیر معاویہ نے کہا: أشهد أن لا إله إلا الله، پھر مؤذن نے أشهد أن محمداً رسول الله کہا تو حضرت امیر معاویہ ؓ نے بھی کہا: أشهد أن محمداً رسول الله۔ یحییٰ بن ابی کثیر راوی کہتے ہیں کہ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ جب مؤذن نے حي على الصلاة کہا تو امیر معاویہ نے لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہا، پھر فرمایا:ہم نے تمھارے نبی حضرت محمد ﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔ (فتح الباري:123/2)
(2) حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے جواب میں لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہنے کی حکمت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ نمازی کو کہا جارہا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی ظاہری اور باطنی توجہ کے ساتھ راہ راست کی طرف چلے آؤ اور قیامت کے دن کی نعمتوں کے حصول کی کامیابی کی طبرف آؤ، تو مناسب ہوا کہ اس کا جواب اس طرح دیا جائے کہ میں کمزور وناتواں ہونے کی وجہ سے اس کے متعلقاپنے اندر طاقت نہیں پاتا، ہاں!اگر اللہ تعالیٰ مجھے برائی سے بچنے اور نیکی کی طرف آنے کی توفیق دے تو اور بات ہے۔ (فتح الباري:123/2) واضح رہے کہ ایک حدیث کے مطابق خود رسول اللہ ﷺ مؤذن کی شہادت سن کر و أنا، و أنا فرمایا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:526) یعنی جب مؤذن أشهد أن لا إله إلا الله کہتا تو آپ فرماتے:’’میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘ اور جب مؤذن أشهد أن محمداً رسول الله کہتا تو آپ جواب دیتے:’’میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد، یعنی خود اللہ تعالی کے فرستادہ ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اللہ ﷺ بھی اذان کا جواب دیا کرتے تھے۔