تشریح:
(1) کسی مقتول کے متعلق عینی گواہ موجود نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی گواہی دیں کہ اس کا قاتل فلاں شخص ہے تو وہ دیت کے حق دار ہو سکتے ہیں، یہی قسامت ہے۔ اس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بڑے کا اکرام ثابت کیا ہے کہ اسے بات کرنے کا موقع دینا چاہیے، چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے آدمی کو اس لیے گفتگو کرنے کا حکم دیا کہ واقعے کی پوری طرح صورت و کیفیت واضح ہو جائے بصورت دیگر اصل دعوے دار تو مقتول کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن تھے لیکن وہ عمر میں چھوٹے تھے۔ بہرحال ہر معاملے میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے ہاں، اگر چھوٹے کے پاس ایسی معلومات ہوں جو بڑوں کے پاس نہیں ہیں تو اسے بات کرنے کا سب سے پہلے موقع دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔